Topics

مذہب آتش پرست اور اس کی وجہ تسمیہ


          قابیل یمن میں نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ ایک دن ایک زاہد کی صورت میں نیاز مندان کے پاس پہنچا اور اپنا مطمئن تعارف کرانے کے بعد عرض کی۔ کہ جناب والا آپ کو معلوم نہیں کہ قابیل سے جو آپ نے قربانی کی شرط کی تھی اور ہابیل کی قربانی منظور ہو گئی تھی اس کا اصلی راز کیا ہے؟

          قابیل نے حیرت سے پوچھا۔ کیا راز ہے۔ اے متقی بزرگ آپ ہی بتایئے۔ میں نے کہا۔ دراصل ہابیل کی آگ کی پرستش کرتا تھا جب کبھی اسے موقع ملتا تھا خفیہ طریقہ سے آگ پوجتا تھا۔ چنانچہ آگ کا دیوتا اس پر مہربان تھا اور ایسی حالت میں یہ کیونکر توقع ہو سکتی تھی کہ وہ قابیل کی قربانی منظور نہ کرتا۔ تم اس کے لئے غیر تھے۔ کیونکہ تم نے آج تک آگ کو سجدہ نہیں کیا۔ تم نے ناحق یہ شرط قبول کی۔ اگر تم ہابیل کے راز سے واقف ہوتے تو کبھی اس شرط کو منظور نہ کرتے۔ میں جانتا ہوں قابیل! تم نہایت ہوشیار اور عقل مند ہو اور یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت ہی نیک ہو۔ مگر افسوس ہے کہ اس نیکی نے تمہیں نقصان پہنچا دیا۔ اگر تمہارے والد ہابیل کی طرح تمہیں بھی آتش پرستی کا راز سکھا دیتے تو تمہیں نقصان نہ پہنچتا۔ دراصل آگ کا دیوتا ہی ہم سب کا مالک ہے۔ وہ جس کو چاہے کامیابی دے اور جسے چاہے ناکام کر دے۔ دنیا کے بے شمار خزانے اس کے پاس ہیں اور وہ اپنے محبت کرنے والے پجاریوں کو مالا مال کرتا رہتا ہے۔ قابیل! اگر تم چاہو تو دنیا میں اور آخرت میں نہایت اچھا رتبہ حاصل کر سکتے ہو۔

          وہ کیسے۔ قابیل نے جوش مسرت میں پوچھا۔

          میں نے کہا وہ اس طرح کہ تم بھی ہابیل کی طرح آگ کے دیوتا کو اپنا رہبر مان کر اس کی عبادت کیا کرو اور ہو سکے تو اپنی مختصر قوم میں بھی اس رواج کو پھیلا دو تا کہ ہر شخص راحت کی زندگی بسر کرے۔ تم دیکھتے ہو کہ تمہارے والد کی اولاد بہت کافی پھیل چکی ہے۔ اگر تم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہو تو سب کو اچھی طرح بتائو۔ تا کہ آئندہ کسی وقت ان میں سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ اگر یہ سب غلط اور بن دیکھے خدا کو چھوڑ کر آگ کے دیوتا کو سب کچھ مان لیں اور گذشتہ گناہوں کی اس کے سامنے توبہ کر لیں تو یقین ہے کہ وہ خوش ہو کر تم سب کو مالا مال کر دے گا اور تم سب کی زندگیاں خوش گوار ہو جائیں گی۔

          مجھے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ میرا یہ وار بھی کار گر پڑا۔ اور میاں قابیل کو اپنا مستقبل شان دار نظر آنے لگا۔ بیچارے نے آئو دیکھانہ تائو۔ میرے مشورہ پر خود بھی عمل شروع کر دیا اور اپنے بھائی بندوں میں بھی آتش پرستی کا رواج پھیلایا جو کسی نہ کسی صورت میں آج تک قائم ہے۔اور میں کوشش کروں گا کہ قیامت تک رہے۔ بلکہ امید ہے کہ اس کو بڑھانے میں بھی کامیاب ہو جائوں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مذہب اسلام نے میرے مشن کو ضرورت سے زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ میں بھی اپنی تمام قوتیں اسلام کو ختم کرنے میں صرف نہ کروں۔ بعض دفعہ مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ میں زیادہ تر مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑا رہتا ہوں۔ مگر پوچھنے والے یہ نہیں سوچتے کہ مجھے بھی تو اسلام نے ہی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ میرا مشن پوری طرح قائم تھا۔ ہر حکومت میری حکومت تھی۔ زمین کے چپہ چپہ پر میں اور میری امت اپنا کام کر رہی تھی کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ تھی کہ شیطان ہے کیا بلا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے اور میں بھی بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مشن کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی دے رہا تھا۔

          خدا جانے یہ اسلام کہاں سے آ کودا۔ بیٹھے بٹھائے مجھے طرح طرح کی پریشانیوں میں پھنسا دیا۔ لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ شیطان سے بچو۔ شیطان سے پناہ مانگو۔ یہ کرو وہ کرو۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلام کی ذرہ ذرہ تعلیم صرف اس لئے ہے کہ میرا مشن خراب کیا جائے۔ اسلام سے اگر کوئی پوچھے کہ تم کیوں آئے۔ تمہاری کیا ضرورت تھی تو جواب دیتا ہے کہ میں دنیا کو سیدھا راستہ بتانے آیا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے صرف مجھ سے دشمنی ہے اور محض میری وجہ سے اسلام آیا۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام صرف اسی لئے آیا ہے کہ اسے میرا مشن پسند نہ تھا۔ میری کامیابیاں اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ میں کس طرح حکومت کررہا ہوں اور دنیا والے کس طرح میرے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے ہیں۔ آخر اس سے رہا نہ گیا حسد کے مارے آپے سے باہر ہو گیا اور میدان میں آکودا۔ اب کوئی اس سے یہ پوچھے کہ دوسروں کو رقابت اور حسد سے منع کرتا ہے لیکن خود ایسا کیوں کرتا ہے؟

          عقل سلیم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام نے زیادہ تر مجھے برا بھلا کہا۔ اپنے پیروئوں کو سمجھاتا ہے تو بھی بات بات پر میرا نام لیتا ہے۔ کسی سے کوئی عبرت انگیز قصہ بیان کرتا ہے تب بھی قدم قدم پر میری مثال بیان کرتا ہے۔ آپ ہی بتایئے میں کب تک صبر کروں۔ مجبوراً میں نے بھی اپنے وقت کا بیشتر حصہ مسلمانوں پر صرف کرنا شروع کر دیا۔ جب یہ مجھے ذرا ذرا سی بات میں بدنام کرتا ہے تو پھر میں کیوں چھوڑ دوں یہ اپنا کام کر رہا ہے، میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ نتیجہ جو کچھ ہو گا بعد میں دیکھا جائے گا۔

          ہاں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ میں نے اپنی کوششوں سے آدم ؑ زاد کو بھٹکانے کے لئے آتش پرستی کا طریقہ ایجاد کیا۔ تا کہ یہ قوم اپنے صحیح راستہ سے بہک جائے اور خوب ٹھوکریں کھائے۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ آتش پرستی کے واقع کو انسانی مورخوں نے ایک دوسرے طریقے سے مشہور کرنے کی کوشش کی ہے۔

          ان کا خیال ہے کہ آتش پرستی کی ابتدا قابیل کے زمانے میں نہیں بلکہ نمرود کے زمانہ میں ہوئی۔ چنانچہ انسانی مورخین لکھتے ہیں کہ:

’’جب نمرود نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا اور آگ نے بہ ہدایت خداوندی حضرت ابراہیمؑ کو محفوظ رکھا تو شیطان نے (یعنی میں نے) یہ مشہور کر دیا کہ چونکہ ابراہیمؑ خفیہ طور پر آگ کی پرستش کرتے تھے اس وجہ سے آگ نے انہیں نہیں جلایا۔ ان مورخین کا خیال ہے کہ میں نے یہ شہرت آتش پرستی کو کامیاب بنانے کے لئے دی تھی۔‘‘

          بعض مورخین اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے ایک یہ  بات پیدا کر دی۔ ان کا خیال ہے کہ کسی زمانہ میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کا نام تھا۔ کشتاسپ۔ اس کے زمانہ میں ایک شخص مسمی زردشت پیدا ہوا اس نے ۲۶ سال کی عمر میں نبوت کا دعویٰ کر کے ایک کتاب تصنیف کی اور اس کا نام ’’شوش‘‘ رکھا۔ اور ظاہر کیا کہ یہ آسمانی کتاب ہے۔ لوگ جوق در جوق اس کی طرف مائل ہونے لگے۔ اس کتاب آتش پرستی کو مذہب کی بنیاد قرار دیا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو شوشی کہتے تھے۔ چنانچہ آج بھی مجوسی قوم میں زردشت کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔

          ’’ذردشت کا نام بعض مورخین نے زرتشت لکھا ہے۔‘‘

          ’’شوشی کا لفظ غالباً زمانہ کے ساتھ بگڑتے بگڑتے مجوسی بن گیا ہے۔‘‘

 

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔