Topics
۱۔ پہلا باب انفرادی
زندگی کے اعمال و حرکات، زندگی کی ساخت اور تخلیقی فارمولے۔
۲۔ دوسرا باب نوعی
تخلیقی فارمولوں پر مشتمل ہے۔
۳۔ تیسرا باب مشیت سے
متعلق ہے۔
کائنات میں کوئی بھی نوع یا کسی بھی نوع کا کوئی فرد زندگی گزارنے
کیلئے دو رُخوں کا محتاج ہے۔ ایک رُخ کو ہم بیداری اور دوسرے رُخ کو خواب کہتے ہیں
۔بیداری اور خواب دونوں کا تذکرہ قرآن پاک میں لیل و نہار کے نام سے کیا گیا ہے۔
قرآن پاک کی ان آیات میں تفکر کیا جائے جن میں لیل و نہار کا بیان ہے تو یہ بات
واضح ہوجاتی ہے کہ حواس ایک ہیں ان میں ردّوبدل ہوتا رہتا ہے۔
یہی حواس جب رات کے پیٹرن (pattern)
میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور یہی حواس جب دن کے پیٹرن
میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’وہی (رات کے اندھیرے سے ) صبح کو پھاڑ
نکالتاہے اور اسی نے رات کو موجب آرام (ٹھہرایا) اور سورج اور چاند کو (ذرائع)
شمار بنایا ہے یہ اللہ کے (مقرر کیے ہوئے) اندازے ہیں جو غالب (اور) علم والا
ہے۔‘‘(سورۃ الانعام۔ آیت 96)
مقصد یہ ہے کہ انسان (جو فی الواقع حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے) رات
اور دن کے حواس میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ دن میں داخل ہوتا ہے تو حواس پابند ہوجاتے
ہیں اور رات میں داخل ہوتا ہے تو حواس کے اوپر سے پابندی کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ ہم
جب علم غیب یا غیب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل رات کے حواس کا تذکرہ کرتے
ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت موسیٰ ؑ کو توریت عطا کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے،
وہاں ارشاد ہے:
’’اور ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ
کیا اور مزید دس (راتوں) کا اضافہ کرکے اسے پورے(چالیس) کردیئے تو اس کے پروردگار
کی چالیس رات کی میعاد پوری ہوگئی۔‘‘
( سورۃ الاعراف۔ آیت 142)
غور طلب با ت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے کوہِ طور پر چالیس دن اور
چالیس راتیں قیام فرمایا۔ ایسا نہیں ہوا کہ رات کو کوہ طور پر چلے جاتے ہوں اور دن
کو نیچے اتر آتے ہوں ۔ حضرت موسیٰ ؑ پر چالیس دن اور چالیس راتوں میں رات کے حواس
غالب رہے اور نتیجہ میں غیبی دستاویز (تورات) عطا فرمادی گئی۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج میں بھی رات کا تذکرہ ہے۔
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو
راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت1)
ہر علم کی حیثیت خواہ وہ اکتسابی ہویا حضوری ، تفکرپر قائم ہے۔ جیسے
جیسے تحقیق و تلاش کا دائرہ وسیع ہوتا رہتا ہے نئے نئے علوم وجود میںآتے رہتے
ہیں۔موجودہ سائنسی دور میں یہی عمل کارفرما ہے۔ ہر دانشور تفکر کے ذریعے کسی نتیجے
پر پہنچتا ہے۔ جس کی تقلید کرتے ہوئے اس کے بعد آنے والے دانشور اس علم کی سطح کو
پھیلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جیسے جیسے تشریحات دماغ کے اوپر وارد ہوتی ہیں ان
ترغیبات اور تشبیہات سے شعور آشنا ہوتا ہے اسی مناسبت سے شعور گہرائی میں سفر کرنے
لگتاہے ۔
قرآن کریم نے نوع انسانی کو مثالیں دے کر علوم سیکھنے کی طرف متوجہ
کیاہے۔
اللہ تعالیٰ آسمانوں اورزمین کی روشنی ہے۔‘‘(سورۃ النور۔ آیت ۳۵)
علم روحانیت تین اوراق کی طرح ہے۔
ہر ورق کے دو صفحے ہیں ۔
پہلا صفحہ تجلی کا عکس ہے۔ دوسرے پر رموز اور مصلحتیں نقش ہیں۔ تیسرے
صفحہ پر رموز واسرار کی تشریحات ہیں۔ چوتھے صفحے پر کائناتی نقوش ہیں ۔ پانچویں
صفحہ پر احکامات کا ریکارڈ ہے۔ چھٹے صفحہ پر اجتماعی اعمال کی تفصیلات ہیں ۔ان
اوراق کا مطالعہ کرنے کیلئے بنیادی سبق*مراقبہ ہے۔مراقبہ سے برقی رو (لائف اسٹریم)
فعال ہوجاتی ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ساری کائنات کا مجموعی علم جو اللہ تعالیٰ نے
آدم کو بحیثیت نائب اور خلیفہ سکھایاہے اور جس علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت
فرمایا ہے، تین اوراق میں جمع ہے۔ ان تین اوراق کے نام یہ ہیں ۔
۱۔ روح اعظم ۲۔ روح انسانی ۳۔ روح حیوانی
تمام علوم کی بنیاد علم الاسماء پر قائم ہے۔ قرآن کریم میں اللہ
تعالیٰ نے جہاں حضرت آدمؑ کی نیابت وخلافت کاتذکرہ فرمایا ہے وہاں یہ بات بنیادی
طور پر بیان ہوئی ہے کہ حضرت آدمؑ کو علم الاسماء سکھایا گیا ہے۔ علم الاسماء کی
بنیاد پر فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا۔
’’ اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام (علوم) سکھائے پھرا ن کو فرشتوں کے
سامنے کیا اور فرمایاکہ اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔‘‘(سورۃ البقرہ ۔آیت31)
انسان کا شرف اس بات پر قائم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نیابت حاصل
ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے نیابت کے اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ نیابت کے اختیارات کو
جاننے، سمجھنے اور استعمال کرنے کے بعد تکوینی بندے کو یہ علم حاصل ہوجاتاہے کہ
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
بندے سے مراد نوع انسان اور نوع انسان کے تمام افراد ہیں۔ مطلب یہ ہے
کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو علم الاسماء عطا فرمادیا اور اپنی تخلیقی صفات
سے حضرت آدمؑ کو آگاہ فرمادیا تو حضرت آدمؑ کا یہ علم پوری نوع انسانی کا ورثہ بن
گیا۔
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ فرماتے ہیں :
’’جب کوئی بندہ اس نیابت کو، جو اللہ تعالیٰ
نے ازل میں حضرت آدمؑ کو عطا فرمائی ہے، تلاش کرنا چاہے تو *مراقبہ: غور ۔ تصور۔
سوچ بچار۔ دھیان۔ گیان۔ فکر کرنا۔ حضوری قلب سے اللہ کا دھیان کرنا۔ سب چیزوں کو
چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا دھیان کرنا سب سے پہلے اس کے یقین میں یہ بات راسخ ہونی
چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے صفت رحیمی سے اس کائنات کو
تخلیق کیاہے ازل میں حضرت آدمؑ کو اسم رحیم کی صفت منتقل ہوئی ہے۔ اگر انسان ہمہ
تن مصروف ہوکر اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی پر غور کرے تو اس کے اوپر تخلیقی علوم
منکشف ہوجاتے ہیں ۔‘‘
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسم رحیم کی صفت کا تذکرہ حضرت عیسیٰ ؑ
کے واقعہ میں کیاہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ مٹی کے جانور میں پھونک مارکر اڑادیتے تھے
یا پیدائشی کوڑھی یا اندھے کو اچھا کردیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کے دیئے
ہوئے اختیارات سے اسم رحیم کی صفت کو عملاًجاری و ساری فرمادیتے تھے۔
’’ تب اللہ تعالیٰ (عیسیٰ ؑ سے ) فرمائیں گے
کہ اے عیسیٰ ابن مریم میرے احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ
پر کیے، جب میں نے روح القدس(یعنی جبرئیل) سے تمہاری تائید کی تم ماں کی گود میں
اور جوان ہوکر (ایک ہی طرز پر) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے۔اور جب میں نے تمہیں کتاب
اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا
جانور بناکر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا اور مادر
زاد اندھے اور کوڑھی (جذام )کو میرے حکم سے صحت یاب کردیتے تھے اور مردے کو (زندہ
کرکے ) کھڑا کرتے تھے۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے
پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو ان میں سے جو کافر تھے کہنے لگے یہ تو محض کھلا جادو
ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔ آیت 110)
تخلیقی فارمولا یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی
روح کام کررہی ہے ۔ اگر انسان کے اندر روح موجود نہیں ہے تو اس کا وجود ناقابل
تذکرہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونک دی تواس کے اندر حواس
متحرک ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! یہ لوگ آپ سے
روح کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔ اور جو کچھ
تمہیں علم د یا گیا ہے قلیل ہے۔‘‘( سو رۃبنی اسرائیل ۔ آیت 85)
’’روح کا قلیل علم دیا گیا ہے۔‘‘ یہ بات توجہ
طلب ہے کہ جس قلیل علم کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اللہ
تعالیٰ کے تمام علوم لامتناہی ہیں۔ لامتناہی کا قلیل بھی لامتناہی ہے۔ مقصد یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے روح کا جو علم عطا کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علوم کے مقابلے میں
قلیل ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روح کا علم کسی کو حاصل نہیں ہے یا کسی کو حاصل
نہیں ہوسکتا۔
’’اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا
ارادہ کرتا ہے تو کہتاہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہوجاتی ہے۔‘‘(سورۃ یٰسین۔آیت 82)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
انسان ناقابل تذکرہ شے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ یہی
بات اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمارہے ہیں کہ’’ جب تو بناتا ہے مٹی سے جانور کی
صورت میرے حکم سے یعنی میرے دیئے ہوئے علوم سے پھر اس میں پھونک مارتاہے تو ہوجاتا
ہے وہ جانور۔‘‘مفہوم یہ ہے کہ حضرتعیسیٰ ؑ تخلیقی فارمولے کے تحت یااسم رحیم کی
صفت کے تحت مٹی کے جانور میں پھونک مارتے تھے تو وہ اڑجاتاتھا۔ پیدائشی اندھے اور
کوڑھی کے اوپر دم کرتے تھے تو بھلا چنگا ہوجاتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے جب کائنات
بنائی اور لفظ ’’کن‘‘ فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم رحیم نے حرکت میں آکر کائنات
کے تمام اجزا اور تمام ذرّوں کو شکل و صورت بخش دی۔
آسمانی صحیفے اور الہامی کتابیں، بیان کی مخصوص طرز رکھتی ہیں ۔تفکر
کیا جائے تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طرز استدال
یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف طرزوں اور مثالوں سے بیان فرماتے ہیں اسکی وجہ یہ
ہے کہ ہر انسان روحانی علوم سے واقفیت نہیں رکھتا ۔ الہامی علوم کا شعور پر وزن پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی بات کو
مختلف طریقوں سے بیان فرماتے ہیں تاکہ شعور کے اوپر زائد وزن نہ پڑے۔یہی طرز
استدلال قرآن کا ہے اور یہی طرز استدلال دوسری الہامی کتب توریت ، زبور اور انجیل
کا بھی ہے ۔احادیث کاطرز استدلال بھی یہی ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کا علم سیڑھی بہ سیڑھی نزول اور صعود کرتاہے۔
انا
للہ وانا الیہ راجعون
’’تحقیق ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘
(سورۃ
البقرہ ۔ آیت 156)
۱۔ اللہ تعالیٰ کا علم جب نزول
کرتاہے تو مخلوق کا ادراک بن جاتاہے۔
۲۔ یہ علم ادراک بن کر ایک نقطے
پر کچھ دیر قیام کرتا ہے یعنی اس کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نگاہ بن جاتی ہے۔
۳۔ ادراک میں جب تک گہرائی پیدا
نہیں ہوتی خیال کی کیفیت رہتی ہے۔
۴۔ ادراک جب خیال کی حدود میں
داخل ہوتاہے تو کسی چیز کا ہلکا سا عکس بنتاہے یہ عکس احساس پیدا کرتا ہے ۔
مفہوم
یہ ہے کہ خیال کی حدود میں احساس کام تو کرتا ہے لیکن اسکی حیثیت صرف نظر کی ہوتی
ہے۔
۱۔ جب احساس ایک ہی نقطہ پر چند
لمحوں کیلئے مرکوز ہوجاتا ہے تو اس میں خدو خال اور شکل و صورت پیدا ہوجاتی ہے اور
یہ خدو خال باطنی نگاہ کے سامنے آجاتے ہیں ۔
۲۔ نگاہ کے سامنے آنے والے
ماورائی خدوخال جب ایک ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتے ہیں تو نگاہ گویا
ہوجاتی ہے۔
۳۔ قوت گویائی اگر ذرا دیر اوراس فرد یا نقطے کی طرف متوجہ رہے تو فکر
اور احساس میں رنگینی پیدا ہوجاتی ہے اور نگاہ اپنے ارد گرد نیرنگی کا ایک ہجوم
محسوس کرتی ہے۔
’’ہم نے انسان کو وہ علم سکھائے جووہ نہیں جانتا تھا۔‘‘(سورۃ العلق۔
آیت 5)
جس
طرح خیال علم ہے اسی طرح نگاہ بھی علم ہے۔چونکہ ہر چیز کی بنیاد علم ہے اس لیے
خیال اور نگاہ کے بعد تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ علم کی یہ کیفیت نزولی ہے۔ علم
نزول کرکے عالم ناسوت تک آتا ہے اورانسان کی حس گوشت پوست کے جسم کو چھولیتی ہے۔
اور یہ ہی کیفیت کسی شے کی محسوسیت کیلئے انتہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان