Topics

عورت کی پہلی غلطی


          مجھے جنت سے واپسی کے بعد جو تفصیلات ملیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حوا نے میرے مشورہ کو اپنی آئندہ بہبودی پر محمول کرتے ہوئے فیصلہ کر لیا کہ وہ خود بھی پھل کھائیں گی اور اپنے خاوند کو بھی مجبور کریں گی۔ تا کہ عذاب سے نجات مل سکے۔ چنانچہ وہ اس درخت سے سات خوشے گندم کے توڑ کر لائیں۔ جن میں سے ایک تو خود کھا لیا اور خدا جانے کسی نیت سے ایک خوشہ اپنے پاس محفوظ رکھ کر باقی پانچ خوشے آدم ؑ کو دیئے اور ان سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی یہ پھل کھا کر عذاب الٰہی سے پناہ میں آ جائیں۔

          آدم ؑ یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئے اور پوچھا۔ حوا! یہ تم نے کیا غضب کیا تم کو اپنے پروردگار کا وہ حکم یاد نہیں کہ یہ پھل ہم دونوں کی تباہی کا باعث ہے۔ اس کے قریب بھی نہ جانا۔

          حوا نے سایت متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا۔ آپ گھبرایئے نہیں میں اس حکم کی تہہ تک پہنچ گئی ہوں۔ درحقیقت یہی درخت ہماری تباہی اور بربادی کے لئے تھا اور اسی واسطے ہم اس کے پھل کھا رہے ہیں۔

          آدم ؑ نے حیرت سے پوچھا تو کیا تم خود اپنے ہاتھوں تباہ ہونا اور پروردگار کی بارگاہ سے مورد عتاب ہونا پسند کرتی ہو۔

          حوا نے جواب دیا۔ ’’آپ کیا جانیں۔ اس راز کو۔ یہ درخت ممنوع کیوں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس درخت کو ممنوع قرار دینے میں خالق کائنات کی بہت بڑی حکمت عملی ہے۔‘‘

          ’’وہ کیا۔‘‘ آدم ؑ نے دریافت کیا۔

          بس اس کو راز ہی رہنے دیجئے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ جس راز سے میں واقف ہو چکی ہوں وہ آپ پر بھی روشن ہو جائے۔ ہاں ۔ ہم دونوں کو اس کے نتیجہ پر ضرور غور کرنا چاہئے اور وہ بہت ہولناک ہے۔

          ارے اگر ہولناک ہے تو پھر کھاتی کیوں ہو؟

          ہمیں کھانا ہی پڑے گا۔ اے آدم ؑ بغیر اس کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ تو کیا ہم یہ پھل کھا کر تباہ نہ ہو جائیں گے؟

          نہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور اس کا انجام کتنا اچھا ہے۔ آپ میرے کہنے پر عمل کیجئے اور یہ پھل کھا لیجئے۔

          آدم ؑ نے بہم ہو کر کہا۔ ہرگز نہیں۔ حوا اگر تم اپنے پروردگار سے سرکشی کرنے والی ہو تو کرو۔ میں اپنے میثاق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ میں نے اپنے پروردگار سے جو وعدہ کیا ہے وہ اٹل ہے۔ اور کوئی طاقت اسے نہیں بدل سکتی۔ جنت کی ہر نعمت میرے لئے آزاد ہے۔ کیا حرج ہے۔ اگر میں ایک پھل کو ہمیشہ کے لئے اپنے واسطے حرام کر لوں۔

          ’’یہی آپ کی بھول ہے۔‘‘ بھویں سکیڑتے ہوئے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ آپ خود تباہ ہونے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

          کیا کہا۔ میں تباہ ہونے کا بیڑا اٹھا رہا ہوں۔

          ہاں۔ آپ اٹھا رہے ہیں۔

          یہ کیسے؟

          یہ کیسے۔ یہ ایسے کہ آپ اپنے عیش و آرام کے ذریعے پر تالا لگا رہے ہیں۔ اپنی بھلائی کے راستے میں ناعاقبت اندیشی کے کانٹے بچھا رہے ہیں۔ اپنے حسین مستقبل کے چہرہ پر ہٹ دھرمی کی سیاہی مل رہے ہیں۔ تا کہ آپ عذاب الٰہی کے حق دار بنیں اور اپنی بھلائی کے ذرائع آمناو صد قنا کے تاریک کنویں میں پھینک دیں کیا آپ کو ……

          آدم ؑ نے بات کاٹ کر کہا۔ حوا! تمہاری یہ عجیب و غریب باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ کیا تمہارا یہ منشا ہے کہ میں اپنے پروردگار کے احکام سے سرکشی کروں۔ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ محض ایک پھل کا ذائقہ حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام نعمتوں کو ٹھکرا دوں۔ اور پھر کچھ خبر نہیں کہ وہ پھل ذائقہ میں کڑوا ہے یا میٹھا ہے۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے۔ جس کو میں اور تم دونوں نہیں جانتے۔

          آپ نہ جانتے ہوں۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ اس کا ذائقہ شہد سے زیادہ میٹھا اور جنت کی ہر نعمت سے زیادہ  سرور انگیز ہے۔ یہ دیکھو آدم ؑ اس کی رنگت کتنی دلفریب ہے۔ مسکہ سے زیادہ نرم اور دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ لو اسے کھا لو تا کہ ہم عذاب الٰہی سے محفوظ ہو جائیں۔

          کیا کہا حوا تم نے۔ عذاب الٰہی سے محفوظ ہو جائیں۔

          ہاں۔ عذاب الٰہی سے محفوظ ہونے کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔

          یعنی یہ کہ پروردگار سے سرکشی عذاب سے بچانے کا ذریعہ؟

          سرکشی نہیں بلکہ حفاظت خود اختیاری کے لئے سمجھداری۔

          ایسی سمجھداری تمہیں ہی مبارک رہے۔ حوا میں کسی حالات میں اپنے خالق سے غداری کے لئے تیار نہیں۔ کہ محض اس غداری کے باعث عزازیل جسیا باعظمت شخص مورد عتاب ہوا۔ اس نے بھی تو ایک ہی نافرمانی کی تھی۔ جس کے باعث آج تک مورد عذاب ہے۔ اور تمام کائنات کی بھلائیاں اور عیش و آرام اس پر حرام ہو گیا ہے۔ تو کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں بھی نافرمانی کر کے عذاب میں مبتلا ہو جائوں۔

          حوا نے کہا۔ وہ مغرور تھا۔ اس نے پروردگار کے سامنے غرور کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہنا نہیں مانا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوا۔ اور آپ یہ کام اپنی بھلائی کیلئے کریں گے۔ اپنا مستقبل درست کرنے کیلئے کریں گے۔ اس واسطے ہم پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہو گی۔ بلکہ آئندہ کا ایک خطرہ جاتا رہے گا۔

          وہ خطرہ کیا۔ آدم ؑ نے حیرت سے پوچھا۔

          خطرہ یہ کہ اگر ہم نے یہ پھل نہ کھایا تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

          آدم ؑ مسکرائے۔ کیا کہہ رہی ہو حوا۔ یہ الٹی بات۔ پروردگار نے تو یہ بتایا ہے کہ اگر یہ پھل کھائیں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ تم یہ کہتی ہو کہ اگر یہ نہ کھائیں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔

          حوا آخر مجبور ہو گئیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ آدم کسی طرح راضی نہیں ہوتے تو انہوں نے اجنبی کی ملاقات اور اس کی مفصل گفتگو بیان کر دی اور آخر میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ وہ ٹھیک کہتا ہے ورنہ اس کی کیا ضرورت تھی کہ جنت کے تمام میوے اور تمام نعمتیں تو ہمارے لئے مباح قرار دی جائیں لیکن ایک حقیر درخت کیلئے ایسی زبردست شرط لگا دی جائے۔ یقیناً یہی شرط ہمارے لئے نقصان دہ ہے اور ہمیں چاہئے کہ یہ پھل ضرور کھائیں۔

          

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔