Topics
ابوجہل کی ایک کنیز جس کا نام سمیہ ؓ تھا مسلمان ہوگئیں تو ابوجہل نے انہیں بلایا
اور حکم دیا کہ اسلام سے فوراً دستبردار ہوجا۔ حضرت سمیہ ؓ نے جواب میں کہا:
”میں محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
دین کو نہیں چھوڑ سکتی۔“
ابوجہل نے طیش میں آکر اپنی ناتواں کنیز پر کوڑے مارنا شروع
کردیئے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ نڈھال ہوکر زمین پر گرگئیں۔ حضرت ابوبکر ؓ اس
واقعے سے مطلع ہوگئے اور ابوجہل کے گھر پہنچے انہوں نے دیکھا کہ حضرت سمیہؓنڈھال
اور بے حس و حرکت زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے ابوجہل سے کہا:
”میں اس کنیز کو خریدنا چاہتا ہوں۔“
ابوجہل نے کہا:
”میں اسے نہیں بیچناچاہتا۔“
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
نے کہا:
”اے ابوجہل اگر توسمیہ ؓ کو فروخت کرنے پر رضا مند ہوجائے تو میں تجھے
ایک سو دینار ادا کرنے کو تیار ہوں۔“
ابوجہل غرّایا:
”میں اسے نہیں بیچوں گا۔“
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
نے قیمت بڑھادی اور بولے:
”میں تمہیں سمیہ ؓ کے بدلے ڈیڑھ سو
دینار دینے کو تیار ہوں۔“
لیکن ابوجہل کی ضد برقرار ہی اور وہ بولا کہ میں سمیہ ؓ کو فروخت نہیں کروں گا۔ حضرت ابوبکر
صدیق ؓقیمت بڑھاتے رہے لیکن ہربار ابوجہل
کا جواب یہی تھا کہ میں اسے فروخت نہیں کروں گا۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ
کرچکے تھے جب یہ دیکھا کہ ابوجہل کسی طور پر بھی حضرت سمیہ ؓ کو فروخت کرنے پرتیارنہیں توانہوں نے ابوجہل سے
کہا:
”اگر تو حضرت سمیہ ؓ کو میرے ہاتھوں فروخت کرنے پر راضی ہوجائے تو
میں تجھے ”ابلِ قاضیہ“ دینے کو تیار ہوں۔“
ابلِ قاضیہ بادیہ نشین عربوں کی مخصوص اصطلاح کا نام تھا۔
اس کا اطلاق ان اونٹوں پرہوتا تھا جو کسی کے قتل کے بدلے میں اس کے لواحقین کو
دیئے جاتے تھے، دوسرے لفظوں میں ابلِ قاضیہ اس خون بہا کا نام تھا جو مقتول کے
ورثاء کو اداکیا جاتا تھا اور اس عنوان سے منہ مانگی رقم طلب کی جاسکتی تھی۔ابوجہل
کے دل میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اتنی کدورت اور عداوت تھی کہ وہ
منہ مانگی قیمت پر بھی کنیز کو حضرت ابوبکر صدیق
ؓ کے ہاتھوں فروخت کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
نے اس دن تک چھ غلاموں اور کنیزوں کو خریدکر آزاد کردیا تھا جن میں دو مرد اور چار
عورتیں تھیں۔ لیکن اس بار وہ حضرت سمیہ ؓ
کو رہائی دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جب قریش کی عورتوں نے سنا کہ سمیہ ؓ کو ہر روز ابوجہل کوڑے مارتا ہے لیکن وہ اسلام
چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ ابوجہل کے پاس گئیں اور اس سے کہا کہ وہ اس عورت کو
کوڑے مارنا بندکردے اس عورت نے قریش کی بے شمار عورتوں کی مدد کی ہے۔ لیکن ابوجہل
نے ان کی ایک بات نہیں سنی۔ ابوجہل نے حضرت سمیہ ؓ کو اتنے کوڑے مارے کہ ان کا سارا جسم خون خون
ہوگیا اور ان میں ہلنے جلنے کی سکت نہیں رہی لیکن وہ اس کے باوجود یہی کہتی رہیں
کہ میں محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)کے دین کو نہیں چھوڑوں گی۔
جب ابوجہل اپنی کنیز کے ایمان کو بدلنے میں ناکام ہوگیا
تواس نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک دن حضرت سمیہ ؓ کو خانہ کعبہ کے سامنے لے آیا اور جب اہلِ مکہ
وہاں جمع ہوگئے تو ابوجہل نے اتمام حجت کے طور پر حضر ت سمیہ ؓ سے پوچھا:
”کیا اب بھی تو محمد (علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کے دین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے؟“
حضرت سمیہؓ نے جواب دیا:”میں محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے
دین کو ہرگز نہیں چھوڑوں گی۔“
ابوجہل نے کہا پھر میں تجھے یہیں اور اسی وقت موت کے گھاٹ
اتاردوں گا۔ اس کے بعد ابوجہل نے اہلِ مکہ کے سامنے اپنا نیزہ اتنی قوت سے حضرت
سمیہ ؓ کے سینے میں گھونپ دیاکہ نیزے کا سرا حضرت سمیہ ؓ کی پیٹھ سے باہر نکل آیا۔ حضرت سمیہ ؓ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی پہلی خاتون
ہیں۔روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت سمیہ ؓ کی رہائی کے سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی جدوجہد سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے حضرت
ابوبکر صدیق ؓ کے حق میں دعافرمائی:
”اللہ تیرے چہرے کی درخشندگی کو برقرار رکھے“۔
حضرت لبینہ
ؓاورحضرت زنیرہؓ
دو خواتین جو حضرت عمر
ؓ(اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی خادمہ تھیں حلقہئ اسلام میں داخل
ہوگئیں۔ ان میں سے ایک کا نام ”لبینہ“ اور دوسری کا نام ”زنیرہ“ تھا۔ حضرت عمرؓ
حضرت بلال ؓ کے مالک کی طرح شقی القلب نہیں تھے کہ کنیزوں کو بندھوا کر تپتی ہوئی
ریت پر پھینک دیں بلکہ انہوں نے ان دونوں کو کوڑوں کی سزا کا مستحق سمجھااور ان سے
کہاکہ
”میں اس وقت تک تم پر کوڑے مارتا رہوں گا جب تک دو میں سے
ایک بات پوری نہیں ہوگی۔ تم محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے دین کو چھوڑ دو یا
تمہاری جان نکل جائے۔“
اگرچہ ان دونوں کنیزوں کا جسم خون سے لہولہان تھا مگر انہوں
نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر ؓ ان
کنیزوں کی مددکے لئے تشریف لائے اور حضرت عمرؓ سے کہا کہ وہ ان کنیزوں کو فروخت
کردے۔ حضرت عمرؓنے ان دونوں کنیزوں کو فروخت کردیا اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے دونوں کو آزاد کردیا۔
چوتھی عورت جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ صحرا میں رہنے والی
ایک خاتون تھیں جن کا نام غزیہ ؓ تھا۔حضرت
غزیہ ؓ کنیز نہیں تھیں۔ وہ مکہ آنے کے بعد
مسلمان ہوگئیں اور کھلے عام لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگیں۔ صحرا نشین عورتیں
بھی بدوی مردوں کی طرح بے باک اور نڈر ہوتی تھیں لہٰذا وہ خاتون بھی اہلِ قریش کے
ڈرانے اور دھمکانے سے قطعی خوف زدہ نہیں ہوئیں۔
قبیلہ قریش کے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت غزیہ ؓ کسی طور سے اسلام کی تبلیغ سے دستبردار نہیں
ہوتیں توانہیں اغواکرکے مکہ سے باہر جانے والے ایک قافلہ کے پاس لے گئے اور ایک
اونٹ پر بٹھا کر مضبوطی سے باندھ دیا اور قافلہ کے سپرد کرتے ہوئے بولے کہ
”اس عورت کوپانی اور غذا بالکل
نہیں دینا تاکہ یہ بھوک اور پیا س کی شدت سے ہلاک ہوجائے اور جب تمہیں یقین ہوجائے
کہ یہ مرچکی ہے تو پھر اس کی لاش کو اونٹ سے اتار کر صحرا میں پھینک دینا تاکہ
صحرائی جانور اسے کھالیں اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہے۔“
ایک روایت کے مطابق حضرت غزیہ ؓ کہتی ہیں:
”تین دن کی بھوک اور پیاس نے مجھے
بالکل نڈھال کردیا تھا۔ لیکن چوتھے دن مجھے اپنے ہونٹوں پر ٹھنڈے پانی کی نمی
محسوس ہوئی اور میں نے بے اختیار ہوکر پانی پینا شروع کردیا اور اتنا پانی پیا کہ
میری پیاس بجھ گئی۔ اگلے دن قافلہ والوں نے جو تصور کررہے تھے کہ میں بھوک اور
پیاس کی شدت سے ہلاک ہوچکی ہوں جب مجھے ہشاش بشاش دیکھا تو انہیں حیرت ہوئی اور جب
میں نے گذشتہ رات کا واقعہ سنایا تو وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور انہوں نے میری
رسیاں کھول دیں اور مجھ سے بڑی عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئے۔“
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
کے بہت سے فضائل میں سے ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ آپؓ نے بے سہارا ستم رسیدہ
لوگوں کی جان بچائی۔ حضرت بلالؓ، حضرت عامر ؓبن فہیرہ، حضرت لبینہؓ، حضرت زنیرہؓ،
حضرت نہدیہؓ، اور حضرت ام عبیس ؓ کو بھاری قیمت پر خرید کر آزاد کردیا۔ حضرت
سمیہ ؓکی شہادت کے بعد قریش کے سرکردہ
لوگوں میں سے چار افراد نے جن میں ابوسفیان، ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل شامل
تھی، یہ پابندی لگادی کہ مکہ میں رہنے والا کوئی شخص اپنا غلام یا کنیز حضرت
ابوبکر ؓ کو فروخت نہیں کرے گا۔ وہ لوگ اس
بات سے واقف ہوگئے تھے کہ اسلام کو غریب طبقہ اور خاص طور پر غلاموں میں بڑی تیزی
سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور جو غلام بھی مسلمان ہوجاتا ہے حضرت ابوبکر ؓ اسے
خریدکر آزاد کردیتے ہیں۔
کچھ صاحب ِ حیثیت لوگ جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان،حضرت
عبدالرحمنؓ بن عوف،حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اورحضرت طلحہؓ بن عبید اللہ اورحضرت سعدؓ بن عمرو شامل تھے جب
مسلمان ہوگئے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو قریش میں اضطراب کی لہر دوڑ
گئی۔ ان نومسلموں کا شما ر مکہ کے ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام خانہ کعبہ جانے کے لئے جب بھی اپنے گھر سے باہر تشریف لاتے تو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی جان خطرے میں ہوتی تھی۔ عیاش لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
راستے میں بیٹھ جاتے اور جیسے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ کے لئے اپنے
گھر سے باہر نکلتے یا کہیں اور جانے کا ارادہ کرتے تھے تووہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کو پتھر مارتے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لباس کو گندگی سے
آلودہ کردیتے تھے۔
قبیلہ قریش کے لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دشمنی میں
اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا احترا م بھی پسِ پشت ڈال دیا
تھا۔دونوں مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قاتلانہ حملہ خانہ کعبہ میں ہوا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دن خانہ کعبہ سے اپنے گھر تشریف لے جا رہے تھے تو
قریش نے اس شدت سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اوپر پتھراؤ کیا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام شدید زخمی ہونے کے باعث اگلے دن خانہ کعبہ میں نہ آسکے۔ اس روز جب مسلمان
عبادت کی غرض سے خانہ کعبہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ آج حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام خانہ کعبہ تشریف نہیں لائیں گے۔لہٰذانہوں نے اپنے طور پر عبادت شروع کردی
اور جب وہ لوگ سجدہ میں گئے تو قریش نے ان پر حملہ کردیا۔ کئی مسلمان شدید زخمی
ہوگئے۔
اس واقعہ کے بعد قبیلہ قریش کے افراد شب وروز خانہ کعبہ کی نگرانی
کرنے لگے تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورمسلمانوں کوخانہ کعبہ میں داخل ہونے
سے روک سکیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
جب یہ دیکھا کہ اب وہ اپنے اصحاب ؓکے ساتھ خانہ کعبہ میں عبادت نہیں کرسکتے
توانہوں نے مکہ سے باہر ایک جگہ کاانتخاب کیا۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دن میں دوبار
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں نماز قائم کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والوں میں سے ایک شخص ابو سفیان تھا جو حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انتہا درجے کی دشمنی رکھتا تھا۔ ابوسفیان کاکہنا تھا:
”قریش کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خطرہ لاحق ہے وہ صرف اسی صورت میں ختم
ہو سکتا ہے کہ (نعوذباللہ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قتل کر دیا جائے۔“
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان