Topics
’’اے نبی !کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں
لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہوجائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں
بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کریں۔‘‘ (سورۃ
الکھف۔آیت109)
اللہ تعالیٰ نے اربوں کھربوں درخت پیدا کئے ہیں اگر حساب لگائیں کہ
ایک بڑے درخت میں سے کتنے قلم بن سکتے ہیں۔ سارے درختوں کے قلم بنائے جائیں اور
سارے سمندروں کی روشنائی بنائی جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پوری نہیں ہو
گی۔ البتہ اربوں درخت اور بے شمار سمندر ختم ہوجائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے کلمات
اور نعمتوں کا شمار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کیلئے انسانی
شعور میں سکت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں شمار نہیں کی جاسکتیں لیکن اللہ
تعالیٰ نے اپنے حبیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اپنی نعمتیں تمام کردی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
تعارف کیلئے بنائی ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبروں نے ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی عنوان سے یہ بات ضرور فرمائی ہے
کہ میرے بعد آخر میں ایک اور نجات دہندہ آئے گا ۔ یعنی ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر
یہ اعلان کرتے رہے کہ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائیں گے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ
ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ماننے والوں کے افراد کی مجموعی تعداد کا
اندازہ یا شمار کیا جائے تو یہ حساب و کتاب ایک ناممکن عمل ہے۔ کوئی شخص وہ تعداد
نہیں بتاسکتا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی آمد کا اعلان کیا۔ کمپیوٹر
سے بھی انسان کی علمی استعداد کے مطابق ہی حساب لگایا جاسکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ
ارب، کھرب اور سنکھ در سنکھ ہے۔ انسانی شماریات کا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے
یہ کہا جاسکے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا اعلان
کتنے افراد سے کروایا ہے۔کروڑوں سال یہ اعلان اس لئے ہوتا رہا کہ انسانوں کے اندر
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جاننے، ماننے اور پہچاننے کا شعور بیدار ہوجائے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل دین کی بشارت کے ساتھ یہ آیت نازل ہوئی:
’’ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لئے مکمل
کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔آیت3)
اس ارشاد کایہ مفہوم ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کوئی نبی
نہیں آئے گا کیونکہ دین کی تکمیل ہوچکی اور نعمتیں پوری کردی گئیں ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ تمام عا لمین
کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں اور دین کی تکمیل کردی گئی ہے ۔لہٰذا اب کسی خاص
قوم کیلئے نبی آنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو حضور
علیہ الصلوٰہ والسلام کے طریقہ پر خود چلیں اور دوسروں کو چلائیں۔حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کو سمجھیں،ان پر عمل کریں اور دنیا میں اس قانون کی
حکومت قائم کریں جس کو لے کر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف لائے تھے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے :
’’محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)تمھارے مردوں
میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،مگر وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔‘‘(سورۃاحزاب۔آیت
40)
’’اے نبی!کہو کہ اے انسانو!میں تم سب کی طرف
اللہ کا پیغمبرہوں۔‘‘
(سورۃ اعراف۔آیت158)
ختم نبوت پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فرمان ’’میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ام الکتاب یعنی
لوح محفوظ میں خاتم النبین ہوں‘‘
’’میں پیدائش میں نبیوں سے پہلے ہوں اور مبعوث ہونے میں سب سے آخر ہوں‘‘
(کنزل الاعمال جلد 6صفحہ113)
’’میں پیغمبروں کا سردار ہوں اور یہ فخریہ نہیں
کہہ رہااور سب نبیوں کاآخری ہوں اور یہ فخریہ نہیں کہہ رہا۔‘‘
(کنزل الاعمال جلد 6صفحہ113)
’’رسالت اور نبوت ختم ہوگئی میرے بعد نہ کوئی
رسول نہ کوئی نبی ہوگا۔‘‘(مسلم شریف جلد 2صفحہ248)
’’میری مثال نبیوں میں ایسی ہے کہ جیسے ایک
شخص نے ایک مکان بنایا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی۔بس میں نبیوں میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔‘‘(ترمذ ی شریف
جلد دوم صفحہ221)
’’میں عاقب ہوں،عاقب وہ ہوتاہے جس کے بعد
کوئی شئے نہ آئے۔‘‘( شمائل ترمذ ی صفحہ26)
’’میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔‘‘(ابن
ماجہ صفحہ 307با ب فتنہ الدجال)
قرآن وحدیث کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثیت صحابہ کرامؓ کے
اجماع کی ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا
دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی ،ان سب کے خلاف صحابہ کرامؓ نے جنگ
کی تھی ۔اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ مسلیمہ کذاب کا معاملہ قابل ذکر ہے ۔یہ شخص
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت کا منکر نہیں تھا بلکہ اسکا دعویٰ یہ تھا کہ اسے
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ شریک نبوت بنایا گیا ہے ۔اس نے حضورعلیہ
الصلوٰۃوالسلام کی وفات سے پہلے جو عریضہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا
تھا۔اس کے الفاظ یہ ہیں۔مسلیمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی طرف سلام ہو۔ آپکو معلوم ہو کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہوں۔صحابہ کرامؓ نے اسکو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور
اس پر فوج کشی کی گئی۔
خلیفۃ المسلین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ (۹۹ھ۔۱۰۱ھ)پہلی صدی کے مجدد ہیں۔آپ ؒ
علم،حلم،تقویٰ پرہیزگاری،عبادت و ریاضت اور عد ل و انصاف میں بے مثال تھے۔آپ ؒ نے
خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی جو پہلا خطبہ دیااس میں ارشاد فرمایا۔
’’اے لوگو!قرآن کے بعد کوئی کتاب نہیں آئے گی اور حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘
( تاریخ الخلفاء۔صفحہ157)
ابو جعفر ابن جریر طبریؒ بڑے بلند پایہ مفسر،مورخ اور عالم تھے۔آپ
اپنی تفسیر میں حضرت قتادہؓ سے خاتم النبین کے معنی یوں بیان کرتے ہیں۔
حضرت قتادۃ ؓ فرماتے ہیں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ کے
رسول اور خاتم النبین بمعنی آخر ی نبی ہیں۔(تفسیرابن جریر طبریؒ )
امام جلال الدین سیوطیؒ مفسراور محقق تھے۔وہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف
دُرمنثور میں حضرت عبد اللہ ابن حمیدؓ کے حوالے سے سیدنا حضرت امام حسنؓ سے نقل
کرتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام رسولوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے
مبعوث فرمائے آخری نبی ہیں۔‘‘
(تفسیر در منثور۔ازامام جلال الدین سیو طی ؒ
)
حضرت محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ختم نبوت کے بارے میں اپنی
تصنیف ’’غنیہ الطالبین‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’کہ سب اہل اسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام آخری
نبی ہیں۔‘‘
حضرت علامہ آلوسی اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘میں تحریر فرماتے ہیں۔کہ
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام خاتم النبین ہیں۔اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم
المرسلین بھی ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد قیامت تک اب وصف نبوت ورسالت
کسی جن وانس میں پیدا نہیں ہوسکتا ۔ختم نبوت کی تصریح قرآن مجید میں موجود ہے اور
اس پر ایمان رکھنا از بس ضروری ہے اور اسکا منکر کافر ہے۔‘‘(روح المعانی۔جلد
5صفحہ40)
حضرت علامہ زرقانی ؒ اپنے وقت کے مشہور مفسر،محقق ،محدث اور فاضل اجل
ہی نہ تھے بلکہ بڑے بلند پایہ سیرت نگار بھی تھے۔حضرت کی سیرت مقدسہ پر لکھی گئی
کتاب’’زرقانی‘‘ نہایت ہی مدلل اور لاجواب تصنیف ہے۔حضرت امام علامہ زرقانی شرح
مواہب لدنیہ ‘‘میں سرکار دو عالم نور مجسم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ختم نبوت کے
بارے میں لکھتے ہیں۔’’کہ حضور پر نور شافع یوم نشور ختم الرسل فخر موجودات حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم النبیّن
ہیں۔‘‘(زرقانی شرح مواہب للدنیہ۔جلد5صفحہ267)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان