Topics
’’ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو یہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دیاہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کا تعین بھی فرما
دیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر آپ سوتے
ہیں۔‘‘
اس اطلاع کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر
صدیق ؓ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام طے فرمالیں۔ اس
کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر تشریف لے آئے۔
رات کے دوسرے پہر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے
باہرمسلّح نوجوانوں کی مشکوک حرکت شروع ہوچکی تھی۔وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے
ناپاک ارادے پر عمل کرنے کیلئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر بیٹھ گئے۔
تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سوجائیں تو یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر
حملہ کردیں۔ ان لوگوں کو پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک ساز ش کامیاب ہوجائے گی۔
اس کے لئے آدھی رات کا وقت مقرر تھا۔
قریش انتہائی تیاری کے باوجود ناکامی اور نامرادی سے دوچار ہوئے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
’’تم میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سوجاؤ۔تمہیں
اُن کے ہاتھوں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چند مزید ہدایات دے کر گھر سے باہر تشریف
لے آئے اور سنگ ریزوں کی ایک مٹھی مشرکین کی طرف پھینکی۔ مشرکین کی نظریں اندھی
ہوگئیں اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں دیکھ سکے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کفار کی صفوں کے بیچ میں سے نکلتے چلے گئے۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام سورۃیٰسین کی یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے ۔
’’ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے
اور ایک دیوار ان کے پیچھے ہم نے ان پر پردہ ڈال دیا ہے، انہیں کچھ نہیں سوجھتا۔ ‘‘
(سورۃیٰسین۔آیت 9)
اس موقع پر کوئی مشرک باقی نہیں بچا جس کے سر پر مٹی نہیں گری ہو۔
اسکے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ سفر کرتے رہے۔ صبح صادق کے وقت
وہ لوگ مکے سے تین میل دور غارِ ثور میں قیام فرما ہوئے۔ یہ نہایت بلند اور مشکل
چڑھائی والا پہاڑہے۔
طے شدہ منصوبہ کے مطابق مشرکین انتظار کررہے تھے کہ ان کے پاس ایک
غیر متعلق شخص آیا اور انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پردیکھ کر پوچھا:’’آپ لوگ کس کا انتظار کررہے ہیں ؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا۔ ‘‘
اس نے کہا: ’’آپ لوگ ناکام و نامراد ہوئے، خدا کی قسم! محمد علیہ
الصلوٰۃوالسلام تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پرمٹی ڈالتے ہوئے تشریف
لے گئے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’بخدا!ہم نے انہیں جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘
لیکن دروازے کی دراڑ سے جھانک کردیکھا توحضرت علی ؓ نظر آئے۔ انہوں
نے کہا:
’’خداکی قسم! یہ تو محمد( علیہ
الصلوٰۃوالسلام) سوئے ہوئے ہیں۔ اُن کے اوپر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چادر
موجود ہے۔‘‘
چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علیؓ بستر سے
اُٹھے تو مشرکین کو اپنی ناکامی کا احساس ہوا۔
انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا: ’’محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کہاں
ہیں؟‘‘
حضرت علیؓ نے کہا:’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
غار ثور کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا :
’’ابھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار میں
تشریف نہ لے جائیں۔پہلے میں جاتا ہوں۔‘‘
چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اندر گئے اور غار کو صاف کیا۔ غار میں
ایک طرف سوراخ تھے۔ جنہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی قبا پھاڑکر بندکردیا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے عرض کیا :
’’ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !آپ
تشریف لے آئیں ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ
کی آغوش میں سررکھ کر سوگئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے دیکھا کہ ایک سوراخ باقی رہ
گیا ہے ۔ آپؓ نے اس پر اپنی ایڑی رکھ کر بند کردیا۔ اس سوراخ میں سانپ تھا۔ اس نے
آپؓ کے پیر میں کاٹ لیا۔ مگر آپؓ نے پیر نہیں ہٹایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی نیند خراب نہ ہو لیکن حضرت ابو بکرصدیق ؓ کے آنسو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
رخسار مبارک پر ٹپک گئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آنکھ کھل گئی۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ابوبکرؓ تمہیں کیا ہوا؟‘‘
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا: ’’میرے ماں باپ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام پر قربان !مجھے سانپ نے ڈس لیاہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر اپنا لعابِ دہن لگادیا اور تکلیف
جاتی رہی۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ تین دن تک اس غا رمیں مقیم رہے۔ اس
دوران میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ رات کو غار میں ساتھ رہتے
اور صبح سویرے مکہ چلے جاتے اور قریش کے عزائم کے بارے میں آگاہی حاصل کرکے شام کو
آکر اطلاع دیتے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا غلا م روزانہ شام کو بکریاں چَرا کر لاتا
اور دودھ پہنچا دیتا تھا۔
قریش کے لوگ فوراًمکہ کے آس پاس پھیل گئے اور گردونواح کے بیابانوں
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابوبکر ؓ کی تلاش شروع کردی۔ مشرکین نے یہ
اعلان کرایا کہ جو شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تلاش کرے گا اسے انعام کے طور
پر سو اونٹ دئیے جائیں گے۔ اگلے روز قریش کے کارندے تیز رفتا ر اونٹوں کے ذریعے اس علاقے تک
پہنچ گئے جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ تشریف فرماتھے۔
قریش جب غار کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک مکڑی نے غار ثور کے تنگ
دہانے پر جالا تن دیا ہے اور غارمیں ایک پرندے کا گھونسلا بناہواہے اور اس میں
انڈے بھی ہیں۔قریش کی آمد ورفت دیکھ کر حضرت ابوبکرصدیق ْ ْْْ ؓ پریشان ہوگئے۔
لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا :
’’غم نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘(سورۃ
التوبہ ۔ آیت 40)
قریش مکہ سوچ میں پڑگئے بغیر جالا توڑے کون اندر داخل ہوسکتا ہے اور
جالا پورا تنا ہوا ہے۔۔۔ اور پھر یہ گھونسلا ۔ پرندے انسانوں کے نزدیک گھونسلے بنا
کر بسیرا نہیں کرتے۔یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کو مشرف فرمایا۔ چنانچہ اہلِ قریش اس وقت واپس چلے گئے جب حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔
’’تم نے اگر نبی (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کی
مدد نہیں کی تو کچھ پرواہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد اس وقت کرچکے ہیں جب کافروں
نے انہیں نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے ،
جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’’غم نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘
اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے
لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ تعالیٰ کا بول تو اونچا
ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ زبردست اور داناوبینا ہیں۔‘‘
(سورۃالتوبہ۔ آیت 40)
تین دن کی مسلسل جستجو اور بے نتیجہ دوڑدھوپ کے بعد قریش کا جوش سرد
پڑگیا اور قریش مکہ واپس چلے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابو بکرؓ نے
مدینے روانگی کا عزم کیا۔ اس دوران حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے غلام حضرت عامرؓ بن فہیرہ
طے شدہ منصوبے کے مطابق دو سفید اونٹنیاں لے کرغارِ ثور پہنچ گئے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکرؓ مدینے کی طرف تشریف لے گئے۔ حضرت عامرؓ بن فہیرہ
بھی ساتھ تھے اور رہنما عبداللہ بن اریقط بھی راستہ بتانے کے لئے ہمراہ تھے۔
ایک دن اس کا روان کا گزر اُمِّ معبد کے پاس سے ہوا۔ وہ ایک مستعد اور
مہمان نواز خاتون تھیں مگر اتفاق سے اس وقت انکے گھر میں کچھ نہیں تھا اسلئے جب ان
لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کھانے کو کچھ مل سکے گا؟ تو انہوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا
کہ گھر میں کچھ نہیں ہے۔ بکریاں چرنے باہر گئی ہوئی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر کونے میں کھڑی ایک کمزور بکری پر
پڑی جو کمزوری کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
اُمِّ معبد سے پوچھا:
’’کیا یہ بکری دودھ نہیں دیتی؟‘‘
’’اس میں اتنی صلاحیت ہی کہا ں ہے!‘‘ اُمِّ
معبد نے کہا۔
’’اگر اجازت ہو تو میں اسی سے دودھ نکال لوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اگر نکال سکتے ہیں تو ضرور نکالیئے!‘‘
اُمِّ معبد تحیر آمیز فراخ دلی سے بولی
چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دودھ دوہنے بیٹھ گئے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے مبارک ہاتھوں کی برکت سے اسی وقت بکری کے خشک تھن دودھ سے بھر
گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے برتن مانگا اور دودھ سے بھر کر اُمِّ معبد کو
دیا کہ پی لے۔ وہ پی چکی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ دودھ نکالا اور
اپنے ساتھیوں کو دیا۔
آخر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود پیا۔
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید دودھ نکالا اور اُمِّ
معبد سے کہا ’’یہ اپنے شوہر کے لئے رکھ لو، بکریاں چرا کر واپس آئے گا تو پئے گا۔‘‘حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے قافلے کے
ساتھ روانہ ہوگئے۔
اُمِ معبد کا شوہر واپس آیا تو اپنی بیگم سے پوچھا کہ اتنا دودھ کہاں
سے آیا؟
اُمِ معبد نے پورا واقعہ تفصیل سے بتایا تو ابو معبد سمجھ گیا کہ
اتنی برکات اسی ہستی کے دم قدم سے ہوسکتی ہیں جس کی تلاش میں کفار مکہ مارے مارے
پھر رہے ہیں، کہنے لگا: ’’اُمِّ معبد ! مجھے تو یہ وہی ہستی معلوم ہوتی ہیں جس کو قریش ڈھونڈ
رہے ہیں، ذرا ان کا حلیہ تو بتانا!‘‘
اُمِّ معبد نے جو حلیہ بتایا وہ بدوی فصاحت کا شاہکار ہے۔
اُمِّ معبد نے کہا۔
’’میں نے ایک تاباں درخشاں انسان کو دیکھا۔۔۔
دلکش چہرہ، عمدہ اخلاق۔۔۔ نہ پیٹ بڑھا ہوا، نہ سر چھوٹا۔ نہایت ہی حسین و جمیل۔
آنکھوں کی سیاہی اور سفیدی دونوں نمایاں۔ دراز پلکیں ، مترنم آواز، سُرمگیں
آنکھیں، لمبی گردن ، گھنے ابرو، باوقار خاموشی اور بہترین گفتگو۔۔۔ کلام میں روانی
کا یہ عالم کہ جیسے موتی ایک تسلسل سے گررہے ہیں، شیریں بیاں۔۔۔ ایک ایک لفظ واضح
اور ضرورت کے مطابق۔ نہ کم، نہ زیادہ۔ دور سے بھی خوبصورت نظر آنے والا اور قریب
سے بھی حسین دکھائی دینے والا، درمیانہ قد۔۔۔ نہ بہت لمبا کہ معیوب معلوم ہو، نہ
بہت چھوٹا کہ نامناسب نظر آئے۔ اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ بارونق و شاداب۔‘‘
ابو معبد اس سے پہلے کہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کرچکا
تھا، اس لئے حلیہ مبارک سن کر بولا۔۔۔ ’’واللہ! یہ وہی انسان ہیں جن کی ہر طرف
تلاش ہورہی ہے، میں بھی ان کی صحبت اختیار کرنا چاہتا ہوں اور مجھے جیسے ہی موقع
ملا، حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان