Topics

حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف ؑ کی پیدائش کے وقت حضرت یعقوب ؑ کی عمر ۷۳ برس تھی۔ حضرت یوسف ؑ کے گیارہ بھائی تھے۔ ’’بن یامین‘‘ سگے بھائی اور دس سوتیلے بھائی تھے۔ حضرت یوسف ؑ بھائیوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل اور فہیم تھے۔ حضرت یوسف ؑ کی پیشانی نور افگن تھی۔حضرت یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند حضرت یوسف ؑ کو سجدہ کررہے ہیں۔اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر بارہ سال تھی۔

جب حضرت یعقوب ؑ کو حضرت یوسف ؑ نے خواب سنایا تو انہوں نے خواب کی تعبیر بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے کام کیلئے منتخب کرلیا ہے ۔ ا للہ تعالیٰ تمہیں علم و حکمت سے نوازیں گے اور نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے۔
حضرت یوسف ؑ کے قصے کو قرآن حکیم میں ’’احسن القصص‘‘ کہا گیا ہے۔

گیارہ ستارے اور چاند

حضرت یوسف ؑ نے اپنے والد حضرت یعقوب ؑ سے کہا!

’’اے میرے باپ ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔‘‘ (سورۃ یوسف۔ آیت4)
حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا!

’’میرے بیٹے! جس طرح تونے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔‘‘

ایک روز حضرت یوسف ؑ کے سوتیلے بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ یوسف ؑ کو باپ سے دور کردیں سب بھائیوں نے باپ سے کہا!
’’
ہم یوسف کو سیر کرانے کیلئے اپنے ساتھ جنگل میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں کے اصرار کے بعد نیم دلی سے اجازت دے دی۔ سوتیلے بھائی حضرت یوسف ؑ کو ساتھ لے گئے اور اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور روتے ہوئے گھر واپس آئے۔ باپ کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ حضرت یوسف ؑ کو بھیڑیا کھاگیا ہے۔ ثبوت کے طو ر پر بکری کا خون لگے ہوئے کپڑے حضرت یعقوب ؑ کو دکھائے۔ حضرت یعقوب ؑ ان کا حیلہ سمجھ گئے لیکن رضائے الٰہی سمجھ کر خاموش ہوگئے۔ جس کنوئیں میں حضرت یوسف ؑ کو پھینکا گیا تھا۔ یہ کنواں حبرون (موجودہ الخلیل) کی وادی سیکم کے قریب ہے۔ اسماعیلی تاجروں کا ایک قافلہ مصر جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تو قافلے کے لوگوں نے ایک کنواں دیکھا۔ پانی پینے کے لئے قافلہ رک گیا۔ قافلے والوں نے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف ؑ اسے پکڑ کر کنویں سے باہر نکل آئے۔ تاجر آپؑ کو ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں نیلام کردیا۔
عربی نسل ’’عمالیق‘‘ جو دو ہزار قبل مسیح میں فلسطین اور شام سے آکر مصر پر قابض ہوگئے تھے اس وقت حکمران تھے۔ اپوفیس (Apophis) نامی بادشاہ تھا۔ مصری فوج کے سپہ سالار ’’فوطیفار‘‘ نے بیس درہم (تقریباً ۵۴۰ پاکستانی روپے) میں حضرت یوسف ؑ کو خرید لیا۔ قرآن نے خریدار کا تعارف عزیز مصر کے نام سے کرایا ہے۔ عزیز مصر کے معنی ایسے صاحب اقتدار کے ہیں جس کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہوسکے۔ عزیز مصر کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ایک عہدے کا نام ہے۔ بائبل اور تلموذ کے مطابق * عزیز مصر شاہی محافظوں کا افسر اعلیٰ تھا۔ عزیز مصر نے اپنی بیوی سے کہا

’’اس کو اچھی طرح رکھنا بعید نہیں کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔‘‘

(سورۃ یوسف۔ آیت21)

زلیخا
حضرت یوسف ؑ کنعان میں پلے بڑھے تھے جہاں تہذیبی اور تمدنی ترقی مصر کے مقابلے میں کم تھی وہاں قبائلی اور نیم خانہ بدوشانہ طرز زندگی تھی جبکہ مصر معاشرت کے اعتبار سے جدید ملک تھا۔ عزیز مصر حضرت یوسف ؑ کی شخصیت اور فہم و فراست سے بہت متاثر ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں اپنی دولت و جاگیر کے نظم و نسق میں اس نے آپؑ کو شریک کرلیا۔

’’اس طرح ہم نے یوسف کے لئے اس سرزمین پر قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ ‘‘( سورۃ یوسف ۔آیت21)

حضرت یوسف ذہین اور زیرک انسان تھے۔ خوبصورتی بے مثال تھی۔ حسن اور خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو ان میں نہیں تھا۔ عزیز مصر کی بیوی ’’زلیخا‘‘ دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف ؑ پر فریفتہ ہوگئی۔

’’خدا کی پناہ! میرے رب تو نے مجھے اچھی منزلت بخشی اور میں یہ کام کروں ایسے ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔‘‘(سورۃ یوسف۔آیت23)

 

 


________________________________________
*
یہ روایت بھی ملتی ہے کہ عزیز مصر شاہی خزانہ کا افسر اعلیٰ تھا۔


 

 

حیا کے پیکر

عصمت و حیا کے پیکر حضرت یوسف ؑ نے ایک لمحہ کے لئے بھی زلیخا کی حوصلہ افزائی نہیں کی، بلکہ اسے بے قراری کی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگے، زلیخا نے انہیں روکنا چاہا۔ اس کھینچا تانی میں آپؑ کی قمیض پھٹ گئی۔ دروازہ کھلا تو عزیز مصر کی بیوی کا چچا زاد بھائی سامنے کھڑا تھا۔زلیخا نے مکر و فریب سے کام لیا اور حضرت یوسف ؑ پر الزام لگایا کہ اس نے مجھے بے عزت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص ذہین، ہوشیار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے کہا یوسف ؑ کا پیراہن دیکھنا چاہئیے اگر سامنے سے پھٹا ہوا ہے تو زلیخا سچ بولتی ہے اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف ؑ بے گناہ ہے۔ محل میں موجود لوگوں نے دیکھا کہ پیراہن پیچھے سے چاک تھا۔ عزیز مصر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے معاملہ رفع دفع کردیا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ بات پورے خاندان میں پھیل گئی۔ امراا و روسا کی بیگمات نے زلیخا کو طعن و تشنیع کی اور اس سے کہا تو کیسی عورت ہے کہ عزیز مصر کی بیوی ہوکر ایک غلام پر عاشق ہوگئی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ تواضع کے لئے پھل رکھے گئے۔ مہمانوں نے چھری سے پھل کاٹنے چاہے تو عین اسی وقت حضرت یوسف ؑ کو قریب سے گزاراگیا ۔ حسن و جمال کا مجسمہ اور مردانہ وجاہت کے پیکر حضرت یوسف ؑ پر جب عورتوں کی نگاہ پڑی تو وہ حواس باختہ ہوگئیں اور انہوں نے پھلوں کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
’’
عزیز مصر کی بیوی نے کہا! یہ ہے وہ شخص، جس کے بارے میں تم مجھے برا کہتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر اب بھی میرا کہنا نہیں مانے گا تو قید کردیا جائے گا اور بہت پریشان ہوگا۔‘‘(سورۃ یوسف۔ آیت 32)
زلیخا کی طرف سے برائی کی ترغیب اور بات پوری نہ ہونے کی صورت میں قید کردینے کی دھمکی سن کر حضرت یوسف ؑ نے اللہ رب العزت کو مدد کے لئے پکارا۔

’’اے میرے رب! مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہیں کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہوجاؤں گا۔‘‘(سورۃ یوسف۔ آیت33)

پہلے صرف زلیخا ہی آپؑ پر عاشق تھی۔ اس واقعہ کے بعد طبقہ روسا کی اکثر عورتیں آپؑ کے حسن پر فریفتہ ہوگئیں۔ حضرت یوسف ؑ راست روی اور عفت و عصمت قائم رکھنے کے لئے امتحان سے گزر رہے تھے۔ بالآخر طرح طرح کے الزامات لگا کر آپ کو پابند سلاسل کرادیا گیا *۔

 

 

ّّّّّّّّّّّّّّّ______________________________________________________
*
اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی۔


 

حضرت یوسف ؑ کی نیکوکاری اور پاکیزہ سیرت کے چرچے پہلے ہی جیل خانہ میں پہنچ چکے تھے۔ آپؑ کے اخلاق، پرہیزگاری اور نیک اعمال کے سبب قیدی اور حکام آپؑ کا احترام کرتے تھے۔حضرت یوسف ؑ سات سال جیل میں رہے۔قید کے دوران آپؑ قیدیوں کو وحدانیت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ نیک عمل کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔
’’
اے جیل کے رفیقو! الگ الگ کئی معبودوں سے ایک اللہ بہتر ہے۔ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ عبادت کے لائق اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ مگر نام رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادا نے۔ نہیں اُتاری اللہ نے ان کی کوئی سند، حکومت نہیں ہے کسی کی سوائے اللہ کے، اس نے فرمادیا کہ نہ پوجو مگر اس کو، یہی ہے سیدھی راہ، بہت لوگ نہیں جانتے۔‘‘(سورۃ یوسف۔ آیت39تا40)

دو خواب!

دو قیدیوں نے خواب دیکھے۔ ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ دونوں نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے اپنے خواب سنائے ایک نے بتایا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ انگور نچوڑ رہا ہوں۔‘‘ دوسرے نے کہا’’میں نے دیکھا کہ سر پرروٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھارہے ہیں۔‘‘

حضرت یوسف ؑ نے تعبیر بتائی کہ انگور نچوڑنے والا بری ہوجائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔

بادشاہ کا خواب

حضرت یوسف ؑ کے قصے میں تیسرا خواب بادشاہ مصر ’’ملک الریان‘‘ کا ہے۔ بادشاہ نے درباریوں کو جمع کرکے کہا، ’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات بالیں سوکھی۔‘‘

بادشاہ کے دربار میں ماہرین نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی قرار دیا۔ لیکن بادشاہ کواطمینا ن نہیں ہوا اور وہ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ بادشاہ کو پریشان دیکھ کر ساقی کو اپنا خواب اور اس کی تعبیر یاد آگئی۔ اس نے حضرت یوسف ؑ کے علم اور حکمت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔بادشاہ نے اسے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے حضرت یوسف ؑ کے پاس بھیجا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک تم لگا تار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات سالوں میں غلے میں خوب فراوانی ہوگی اور اس کے بعد سات سال بہت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی نہیں اُگے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا گیا ہوگا۔ 

خواب میں مستقبل بینی اور حضرت یوسف ؑ کی بیان کردہ تعبیر سے بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ اس نے حضرت یوسف ؑ کو رہا کرکے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ لیکن حضرت یوسف ؑ نے رہا ہونے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ اس الزام کی تحقیق کی جائے جس کے تحت وہ قید کئے گئے تھے۔ بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ قیدی صاحب حکمت بزرگ ہے اور یہ برگزیدہ شخص یقیناًبے گناہ ہے ورنہ الزام کی تحقیق کا مطالبہ نہ کرتا اور جیل سے باہر بخوشی آجاتا۔ شاہ مصر نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ تحقیقات کے نتیجے میں حضرت یوسف ؑ بے گناہ ثابت ہوئے۔

قحط سالی اور منصوبہ بندی

خواب کی تعبیر معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے دربار میں موجود معاشیات کے ماہرین کو اس مصیبت سے محفوظ رہنے کی ہدایت کی۔ یہ خواب جس طرح انوکھا تھا اسی طرح تعبیر بھی عجیب تھی اور سارے دربار میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو اس کام سے عہدہ بر آ ہوسکتا۔ جب حضرت یوسف ؑ نے قحط سالی سے بچنے کی تدابیر بتائیں، بادشاہ ان کے علم و حکمت اور بزرگی کا پہلے ہی معترف ہوچکا تھا اب اس کے دل میں حضرت یوسف ؑ کی عظمت مزید بڑھ گئی۔ اس نے نہ صرف ان تدابیر کو قبول کیا بلکہ حضرت یوسف ؑ کو ان پر عمل کرانے کا اختیار بھی دے دیا۔۔۔ اور کہا:

’’تو میرا نائب ہے۔ آج سے تیرا حکم میری رعایا پر چلے گا۔‘‘ 

اور اس نے فیصلہ کیا کہ حضرت یوسف ؑ نے قحط سالی سے بچنے کی جو تدابیر بتائی ہیں وہ خود ہی ان پر عمل درآمد کرائیں۔ اس سلسلے میں بادشاہ نے شاہی کونسل سے بھی منظوری لے لی۔بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ سے نہایت عزت و احترام سے کہا کہ آپؑ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پیش بندی کریں۔ حضرت یوسف ؑ نے عمل درآمد کے لئے بادشاہ سے مملکت کے مکمل اختیارات مانگ لئے۔

’’یوسف نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجئے۔ میں حفاظت کرنے والا ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘(سورۃ یوسف۔ آیت55)

بادشاہ نے آپ کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔

توریت میں ہے،

’’تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور ساری رعایا پر تیرا حکم چلے گا۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا۔ دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتا ہوں اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ پاؤں نہیں ہلائے گا۔ ‘‘(کتاب پیدائش ۔باب 41،39تا45)

حضرت یوسف ؑ نے مملکت کی باگ ڈور سنبھال لی اور قحط سالی سے بچنے کیلئے انتظامات شروع کردئیے۔پہلے مرحلے میں آپؑ نے زیادہ سے زیادہ غلہ اگانے کی منصوبہ بندی کی۔ ایسے اقدامات کئے کہ وہ زمینیں جو قابل کاشت نہیں تھیں انہیں بھی کاشت کے قابل بنادیا گیا۔ اس طرح ضرورت سے زیادہ فصلیں تیار ہوگئیں۔ آپؑ نے حکومتی خزانوں سے فصلیں خرید لیں اور قحط سالی کے سات برسوں کیلئے غلے کا ذخیرہ کرلیا۔

اگلا مرحلہ عظیم الشان ذخیرے کو اس طرح محفوظ کرنے کا تھا کہ وہ سات سال تک قابل استعمال رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے غلہ کو جمع کرنے کیلئے مخروطی شکل کے اہرام ڈیزائن کئے۔ ہزاروں سال قبل تعمیر کئے جانیوالے یہ اہرام آج بھی معمہ بنے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے علم نبوت کا اعجاز تھا کہ آپ ؑ نے مصر کے اس قدیم معاشرے میں ایسی جدید سائنسی عمارت کی بنیاد رکھی جو ہزاروں سال سے قائم ہے۔

سات سال بارشیں خوب ہوئیں اور بہترین فصل حاصل ہوئی۔ پھرکھیتیاں سوکھنے لگیں۔ جوہڑوں اور تالابوں میں پانی خشک ہوگیا۔ لوگوں کے پاس جمع شدہ غذائی اجناس کی قلت ہوگئی۔ مصر کی ساری زمین خشک ہوگئی اور قرب و جوار میں شدید قحط پڑ گیا۔ لیکن صحیح منصوبہ بندی اور پلاننگ سے گورنمنٹ کے پاس وافر مقدار میں غلہ ذخیرہ تھا۔

کنعان کے باشندے مصر آکر سرکاری گوداموں سے غلہ لے کر گئے تو حضرت یعقوب ؑ نے بھی اپنے بیٹوں کو مصر سے غلہ لانے کے لئے بھیجا۔

تقسیم اجناس

حضرت یوسف ؑ گوداموں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً تقسیم اجناس کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ دورے پر تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک جیسے لباس اور ایک جیسی شکل و صورت کے ’’کنعانی‘‘ لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ کنعانیوں نے بتایا کہ ہم ایک باپ کی اولاد ہیں اور بھائی بھائی ہیں اور غلہ لینے کے لئے کنعان سے یہاں آئے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ نے پوچھا تمہارا کوئی اور بھی بھائی ہے؟ 

انہوں نے کہا، جی ہاں! ہمارا ایک بھائی اور ہے جو والد صاحب کی معذوری کی وجہ سے نہیں آیا۔ ہمارے ابّا جی آنکھوں سے نابینا ہیں۔ ایک بھائی یوسف ؑ کو بچپن میں بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا۔ ابّا جی کو اس سے بے انتہا محبت تھی وہ اس کے غم میں روتے روتے اندھے ہوگئے۔ حضرت یوسف ؑ کو یہ سن کر صدمہ پہنچا کہ حضرت یعقوب ؑ بینائی کھوچکے ہیں۔ انہیں اپنے چھوٹے بھائی کی فکر لاحق ہوئی۔ آپؑ نے اپنے سوتیلے بھائیوں سے کہا ’’تم لوگ کنعان سے آئے ہو ممکن ہے تمہیں یہاں کے قانون کا علم نہ ہو غلہ صرف انہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو موجود ہوں۔ اس بار تم کو معذور باپ اور بھائی کے حصے کا غلہ دیا جاتا ہے۔لیکن جب آئندہ غلہ لینے آؤ تو باپ اور بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا۔‘‘ بھائیوں نے کہا ہمارے والد تو بیٹے کے غم میں گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ آنکھوں سے معذور بھی ہیں۔ ان کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ چھوٹا بھائی باپ کی خدمت میں رہتا ہے اور وہ ابّاجی سے دور ہونا نہیں چاہتا۔

حضرت یوسف ؑ نے باپ کی معذوری کا عذر قبول کرلیا لیکن بھائی کے نہ آنے کی وجہ کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ تمہارے بھائی کو اپنے حصے کا غلہ لینے یہاں آنا پڑے گا اگر وہ نہیں آیا تو تمہیں بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

غلہ لے کر جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے والد سے کہا

والئی مصر نے کہا ہے کہ اگر تمہارا بھائی ساتھ نہیں آیا تو تمہیں بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

حضرت یعقوب ؑ نے کہا!

’’کیا تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس کے بھائی یوسف کے معاملہ میں کرچکا ہوں؟‘‘

حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے باپ کا جواب سن کر شرمندہ ہوئے۔ بڑے بیٹے نے انتہائی عاجزی سے کہا ’’ آپ کو ہم پر اعتماد نہیں رہا لیکن ہم مجبور ہیں اگر آپ نے ’’بن یامین ‘‘ کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجا تو کسی کو بھی غلہ نہیں ملے گا۔ حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں سے وعدہ لیا کہ بن یامین کو صحیح سلامت واپس لے آؤگے۔‘‘

دوسری مرتبہ برادران یوسف کا قافلہ مصر کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ:

’’دیکھو ایک ساتھ شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو داخل ہونا۔‘‘

حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں کو یہ نصیحت اس وجہ سے کی کہ جب وہ پہلی بار مصر میں داخل ہوئے تھے تو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلئے گئے تھے اور الزام ثابت نہ ہونے پر رہا ہوئے تھے۔حضرت یوسف ؑ جانتے تھے کہ بھائی جتنا گندم لے گئے ہیں وہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ انہیں اندازہ تھا کہ کتنی مدت کے بعد دوبارہ غلہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ حضرت یوسف ؑ کو بھائی کا بے چینی سے انتظار تھا۔ شہر سے باہر ملک شام سے آنے والے راستے پر کھڑے ہوجاتے تھے اور انتظار کرتے تھے۔ بالآخر برادران یوسف پہنچ گئے۔ باپ کی نصیحت کے مطابق الگ الگ دروازوں سے داخل ہوئے ۔ حضرت یوسف ؑ نے انہیں شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا اور اپنے سگے بھائی ’’بن یامین‘‘ کو تنہائی میں طلب کرکے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ باپ کی خیر خبر معلوم کی ، اپنی ساری روداد سنائی۔ باپ سے جدائی سے لے کر اب تک کا قصہ بھائی کو سنایا اور تاکید کی کہ دوسرے بھائیوں کو یہ بات نہ بتائے۔

اس مرتبہ حضرت یوسف ؑ نے تمام بھائیوں کو پہلے سے زیادہ غلہ دیا اور غلہ ناپنے کا شاہی پیالہ بن یامین کے سامان میں رکھوا دیا۔

شاہی پیالے کی تلاش

کنعانی جوانوں کا قافلہ ابھی روانہ ہوا ہی تھا کہ چاندی کے شاہی پیالے کی تلاش شروع ہوگئی۔ قافلے والوں پر شبہ ظاہر کیا گیا کیونکہ غلہ صرف اسی قافلہ کو تقسیم کیا گیا تھا۔ قافلہ رکوایا گیا۔ برادران یوسف ؑ نے اس پر احتجاج کیا کہ الزام بے بنیاد ہے بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ قافلے والے واپس چل کر تلاشی دیں اگر الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں مزید غلہ دیا جائے گا اور اگر الزام ثابت ہوگیا تو قانون کے مطابق سزاد ی جائے گی۔

قانون یہ تھا کہ جس کی چوری ہوتی تھی مجرم کو اس کے حوالے کردیا جاتا تھا۔

داروغہ نے تلاشی لینا شروع کردی۔بالآخر سب سے چھوٹے بھائی بن یامین کے سامان میں سے شاہی پیمانہ برآمد ہوگیا۔ یہ دیکھ کر تمام بھائی پریشان ہوئے۔شاہی پہرہ دار بن یامین کو گرفتار کرکے لے جانے لگے تو انہیں باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا انہوں نے داروغہ کی منت سماجت کی کہ’’بن یامین‘‘ کو چھوڑ دیا جائے اور اس کی جگہ جس بھائی کو چاہیں گرفتار کرلیں۔ معاملہ والی مصر حضرت یوسف ؑ کے سامنے پیش ہوا۔

حضرت یوسف ؑ نے کہا!

’’اس سے زیادہ اور کیا ظلم ہوگا کہ اصلی مجرم کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیا جائے۔‘‘

برادران یوسف ؑ وطن واپس ہوئے۔ لیکن اس سفر میں ’’بن یامین‘‘ ان کے ساتھ نہیں تھا۔ ندامت کی وجہ سے باپ کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہوئی اس لئے بڑا بھائی باپ کے سامنے نہیں گیا وہ شہر سے باہر ٹھہر گیا۔بیٹوں نے باپ کو بتایا تو حضرت یعقوب ؑ غمزدہ آواز سے بولے ’’میں جانتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے لیکن جو کچھ تم لوگ کہتے ہو مان لیتا ہوں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
راز کھل گیا

غلہ ختم ہونے کے بعد پھر مصر جانے کے بارے میں سوچنے لگے لیکن شرمندگی کی وجہ سے جاتے ہوئے ہچکچارہے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ غلہ لے کر آؤ اور والئی مصر سے ’’بن یامین‘‘ کے لئے معافی کی درخواست کرو۔با پ کے ہمت دلانے پر بیٹے دربار شاہی میں حاضر ہوئے اور کہا، ’’ہم کو قحط سالی نے پریشان کردیا ہے۔ اب معاملہ خرید و فروخت کا نہیں ہے، ذرائع آمدنی ختم ہوگئے ہیں۔ ہم غلہ کی پوری قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ اگر ہمیں غلہ نہیں ملے گا تو ہمارے گھر میں فاقے شروع ہوجائیں گے۔‘‘

حضرت یوسف ؑ یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئے اور آبدیدہ ہوکر کہا،

’’نہیں نہیں میں تمہیں اور اپنے باپ کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

برادران یوسف ؑ عزیز مصر کی زبانی حضرت یعقوب ؑ کے لئے باپ کا لفظ سن کر حیران ہوئے۔

حضرت یوسف ؑ نے پوچھا!

’’تم لوگوں نے ’’بن یامین‘‘ کے بھائی یوسف کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘

ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ عزیز مصر کو یوسف اور بن یامین سے کیا واسطہ ہے۔

’’میرے بھائیو

میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں جسے تم نے حسد کی بنا پر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔‘‘

حضرت یوسف ؑ کے اس انکشاف سے ان کے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ خوف، شرمساری اور ندامت کے احساس سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔

حضرت یوسف ؑ نے درگزر سے کام لیا اور فرمایا!

’’میں تمہارا بھائی ہوں۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم سے کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے۔‘‘

فرعون مصر کو جب یوسف ؑ کے بھائیوں کی آمد کا پتہ چلا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت یعقوب ؑ ، یوسف ؑ کے والد ہیں اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں تو اس نے حضرت یعقوب ؑ اور ان کے پورے خاندان کو مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور پروٹوکول کے لئے فوج کا ایک دستہ کنعان بھیجا۔ فوج کے دستے کے ساتھ مال برداری کے جانور بھی تھے۔

حضرت یوسف ؑ کا پیراہن

روانگی سے قبل حضرت یوسف ؑ نے اپنا پیراہن بھائیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے مقدس باپ کی آنکھوں سے لگادینا اللہ رب الرحیم اپنا فضل فرمائے گا۔قافلہ ابھی کنعان میں داخل ہی ہوا تھا کہ حضرت یعقوب ؑ نے گھر والوں سے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ گھر والوں نے اس بات کو ضعف دماغ پر محمول کیا اور کہا کہ برسوں پہلے جسے بھیڑیا لے گیا اس کی خوشبو کیسے آسکتی ہے۔ 

حضرت یعقوب ؑ نے کہا

’’تم لوگ وہ بات نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔‘‘

شاہی دستہ کے ساتھ قافلہ جب شہر میں داخل ہوا تو حضرت یعقوبؑ گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے سرجھکائے ان کے پاس پہنچے۔ حضرت یعقوب ؑ نے خوشی اور بے قراری سے کہا!

’’تم سب آگئے ۔۔۔ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘

’’یوسف ہمارے ساتھ نہیں آیا۔‘‘

ایک بھائی سر جھکا کر بولا اور پیراہن نکال کر حضرت یعقوبؑ کو دے دیا اور عرض کیا! یہ پیراہن یوسف نے بھیجا ہے۔ حضرت یعقوب ؑ نے حضرت یوسف ؑ کا کرتا لے کر چوما اور آنکھو

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان