Topics
حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑ
کی پہلی بیوی سارہؓ مغموم رہنے لگیں۔ حضرت سارہؓ نے اصرار کیا کہ ماں بیٹے کو الگ
کردیں۔ اللہ احکم الحاکمین نے فرمایا ہاجرہؓ اور اسماعیل ؑ کو عرب کے ریگستان میں
چھوڑآ۔ حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اس جگہ لے آئے جہاں
کعبہ ہے۔ اس زمانے میں یہ جگہ بالکل غیر آباد تھی۔حضرت ابراہیم ؑ کی نگاہوں سے جب
دونوں ماں بیٹا اوجھل ہوگئے تو آپ ؑ نے ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا!
’’اے ہمارے پروردگار!میں نے اپنی کچھ
اولاد،اس بے کھیتی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے
پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف
مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزی عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔‘‘(سورۃ
ابراہیم ۔آیت37)
چند روز میں مشکیزے کا پانی ختم ہوگیا اور کھجوریں بھی۔ پہلے دودھ
اترنا کم ہوا اور پھر ختم ہوگیا۔ بچے نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھالیا۔ بی بی
ہاجرہؓ پانی تلاش کرتی رہیں۔ قریب کی پہاڑی ’’صفا‘‘پرگئیں مگر وہاں کچھ نہ تھا۔
واپس وادی میں آکر بھوک سے بلکتے بچے پر ایک نظر ڈالی اور دوسری جانب ’’مروہ‘‘ پر
چڑھ گئیں۔ بچے کے پاس پھر پلٹ کر آئیں اسے روتا دیکھ کر بے چینی اور زیادہ بڑھ
گئی۔ اور دوبارہ صفا کی طرف بھاگتی ہوئی گئیں۔ اس طرح آپ نے سات چکر لگائے ۔ مامتا
کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوا اور حضرت ہاجرہؓ کا یہ عمل قیامت تک
جاری کردیا گیا کہ زیارت کے لئے آنے والا ہر فرد حضرت ہاجرہ ؑ کے اس عمل کی پیروی
کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے درمیان ’’سعی‘‘ کرے۔
’’صفا اور مروہ جو ہیں نشان ہیں اللہ کے پھر
جو کوئی حج کرے اس گھر کی زیارت تو گناہ نہیں اس کو کہ طواف کرے ان دونوں میں اور
جو کوئی شوق سے کرے کچھ نیکی تو اللہ قدر دان ہے سب جانتا۔‘‘(سورۃ البقرہ۔آیت 158)
ساتویں چکر میں حضرت ہاجرہؓ بچے کے پاس جب واپس آئیں تو دیکھا کہ جس
جگہ حضرت اسماعیل ؑ روتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ
جاری ہے۔ اللہ کا فرستادہ فرشتہ حاضر ہوا اور حضرت ہاجرہؓ سے کہا، ’’خوف اور غم نہ
کر اللہ تعالیٰ تجھے اور بچے کو ضائع نہیں کرے گا یہ مقام ’’بیت اللہ‘‘ ہے۔ یہ بچہ
اور اس کا باپ بیت اللہ کی تعمیر کریں گے۔بچپن کا ابتدائی دور حضرت اسماعیل ؑ نے
قبیلہ بنی جرہم کے افراد کے ساتھ گزارا۔ بہت سے احکامات ایسے ہیں جن کا تعلق حضرت
اسماعیل ؑ کی ذات سے براہ راست وابستہ ہیں یا ان پر عمل درآمد کا حکم حضرت اسماعیل
ؑ کے دور میں نازل ہوا اور ان اعمال کی اقتدا آج بھی جاری ہے۔ انہی احکامات میں سے
ایک حکم ’’ختنہ‘‘ کا ہے۔
الہامی کتابوں میں حضرت اسماعیل ؑ کی ذات مبارک سے جاری ہونے والی
ایک اور سنت کا تذکرہ بھی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کے والد بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ نے
مسلسل تین راتوں تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں
قربان کررہے ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ نے یہ خواب اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کو سنایا۔۔۔
فرماں بردار بیٹے نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر ہیں آپ
ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل بجا لائیں۔ انشاء اللہ آپ ؑ مجھے صابراور شاکر
بندوں میں سے پائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے دونوں برگزیدہ بندے گھر سے روانہ
ہوئے تو ابلیس ان کے ارادے کو متزلزل کرنے کے لئے حضرت ہاجرہؓ کے پاس آیا اور اس
نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرنے کے لئے
لے جارہے ہیں۔ حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا کہ اسماعیل ؑ ہماری اکلوتی اولاد ہے اور بہت
دعاؤں کے بعد اللہ تعالی نے یہ نعمت ہمیں عطا کی ہے۔ اسماعیل ؑ کا باپ ایسا نہیں
کرسکتا کہ بلاوجہ اسے جان سے ماردے۔
ابلیس نے کہا! ’’تمہارے رب کا یہی حکم ہے کہ اپنے بیٹے کو قربان
کردو۔‘‘
یہ سن کر بی بی ہاجرہؓ نے کہا کہ ’’اگر یہ میرے رب کا حکم ہے تو میں
اس کی رضا پر راضی ہوں۔‘‘
ابلیس ناکام ہوکر حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آیا اور بولا آپ عمر رسیدہ
ہیں اور اسماعیل ؑ آپ کی اکلوتی اولاد ہے اگر آپ نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا تو آپ
کی نسل نہیں بڑھے گی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جواب میں فرمایا!’’اسماعیل ؑ سے میرا تعلق
اللہ کے لئے ہے یہ تعلق اس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے لئے
مجھے وسیلہ بنایا ہے۔ بیٹا میرے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب
کے مالک و مختار کل ہیں وہ جب چاہیں جیسا چاہیں حکم دیں۔ ہم سب اس کے فرمانبردار
ہیں۔‘‘
ابلیس نامراد ہوکر واپس چلا گیا لیکن اس نے ناکامی کو کامیابی میں
تبدیل کرنے کے لئے حضرت اسماعیل ؑ کے پاس گیا ۔
حضرت اسماعیل ؑ نے کہا ’’میرے اللہ کا جو حکم ہے میں اس پر راضی ہوں۔
اباجی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ملائکہ مقربین کے سردار جبرائیل ؑ ان کے
پاس وحی لے کر آتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ مجھے یقین ہے
کہ انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں۔‘‘
قربان گاہ کی طرف جاتے ہوئے ابلیس نے تین بار ان کے ارادے میں دخل
انداز ہونے کی کوشش کی ہر بار حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے شیطان پر سنگ
باری کی۔یہی وہ سنت ہے جس کو حجاج کرام ہر سال حج کے موقع پر دہراتے ہیں اور یہ
سنت ’’رمی جمار‘‘ہے۔ باپ بیٹے دونوں جب منیٰ کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ
نے حضرت اسماعیل ؑ کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا اور گردن پر چھری پھیردی۔
’’پس جب ان دونوں نے رضا و تسلیم کو اختیار کرلیا اور پیشانی کے بل اس
کو پچھاڑ دیا ہم نے اس کو پکارا یوں کہ اے ابراہیم ! تو نے سچ کر دکھایا خواب ہم
یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو بے شک یہی ہے صریح جانچنا اور اسکا بدلہ دیا
ہم نے ایک بڑا جانور ذبح کرنے کو۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔آیت103تا107)
حضرت ابراہیم ؑ کی تابعداری اور حضرت اسماعیل ؑ کی فرمانبرداری
بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے
بچالیا اور ایک مینڈھا قربان کرکے خواب پورا کردیا۔ یہی وہ عظیم قربانی ہے جس کو
اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے ایثار کا عملی نمونہ بنادیا ہے۔
توحید کو عام کرنے کے لئے حکم ہوا کہ اللہ کا گھر تعمیر کرو۔ کعبہ کی
تعمیر کے وقت باپ بیٹے نے اللہ کریم کی بارگاہ میں خوب دعائیں کیں۔ سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا فرمان ہے کہ
’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا ہوں۔‘‘
’’اے رب ہمارے، اور اٹھا ان میں ایک رسول
انہی میں سے پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھا دے ان کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور
ان کو سنوارے اور تو ہی ہے اصل
زبردست حکمت والا۔‘‘(سورۃ البقرہ ۔آیت129)
خانہ کعبہ کی پہلی تعمیر دو برگزیدہ پیغمبروں نے کی۔ باپ راج کی
حیثیت سے اور بیٹا مزدور کی حیثیت سے تعمیر میں مصروف رہے اور جب اسکی دیواریں
اتنی اوپر اٹھ گئیں کہ مزید تعمیر کے لئے پاڑھ کی ضرورت محسوس ہوئی تو پتھر کو
پاڑھ بنا یا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ اس پر چڑھ کر دیوار کی چنائی کرتے تھے۔ یہ یادگار
پتھر ’’مقام ابراہیم ؑ ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم
ؑ نے حج کا اعلان کیا تھا۔
’’ اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں
تیری طرف پاؤں چلتے اور سوار ہوکر دبلے دبلے اونٹوں پر چلتے آتے راہوں دور سے۔‘‘(سورۃ
الحج۔آیت27)
قبیلہ بنو جرہم میں حضرت اسماعیل ؑ کی دو شادیاں ہوئیں۔
پہلی شادی عمارہ بنت سعید سے ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے
بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت اسماعیل ؑ گھر پر موجود نہیں تھے۔
خیریت معلوم کی تو آپ ؑ کی اہلیہ نے مصائب و آلام اور تنگ دستی کا اظہار کیا۔ حضرت
ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے فرمایا!
’’اسماعیل ؑ سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ دروازے کی چوکھٹ تبدیل
کردے۔‘‘
حضرت اسماعیل ؑ گھر آئے تو بیوی نے پیغام پہنچا دیا۔ حضرت اسماعیل ؑ
سمجھ گئے کہ آنے والے مہمان ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ تھے اور وہ ہدایت دے گئے
ہیں کہ بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کرلی جائے۔حضرت اسماعیل ؑ کی دوسری شادی سیدہ
بنت مضاض جرہمی سے ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑ کی غیر موجودگی میں دوبارہ
تشریف لائے تو حضرت اسماعیل ؑ کی دلہن نے خوب خاطر مدارات کی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے
حال احوال پوچھا تو سیدہ بنت مضاض نے فراخی رزق اور خوشحالی کا تذکرہ کیا اور اللہ
کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ جاتے ہوئے پیغام دے گئے،
’’اسماعیل سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو محفوظ رکھے۔‘‘
حضرت اسماعیل ؑ کے گھر واپس آنے پر ان کی اہلیہ نے تمام روداد بیان
کی تو حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا کہ وہ میرے باپ حضرت ابراہیم ؑ تھے اور مجھے ہدایت
کرگئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے سے جدا نہ کروں۔ حضرت اسماعیل ؑ کے بارہ بیٹے تھے جو
اپنے اپنے قبیلے کے سردار کہلائے اور یہ قبیلے سرداروں کے ناموں سے مشہور ہوئے۔اور
اسماعیل کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدائش کے مطابق ہیں۔
اسماعیل کا پہلا بیٹا نبایوط تھا پھر قیدار اور ادبئیل اور مبشام اور مشماع اور
دومہ اور مسار۔ حدور اور تیما اور یطور اور نفیس اور قدمہ۔ یہ اسماعیل کے بیٹے ہیں
اور انہیں کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھاؤنیاں آباد ہوئیں اوریہی بارہ بیٹے
اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہوئے۔(توریت باب پیدائش: ۱۷۔ ۱۳)
حضرت اسماعیل ؑ کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کی شادی عیسوادوم سے ہوئی۔
جو آپ ؑ کے چھوٹے بھائی اسحاق ؑ کے بڑے فرزند اور حضرت یعقوب ؑ کے بھائی تھے۔حضرت
اسماعیل ؑ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جد اعلیٰ ہیں۔ آپ ؑ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے کم و بیش پونے تین ہزار سال قبل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ؑ نے
ایک سو سینتیس برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضرت اسماعیل ؑ کا مدفن کعبہ شریف
میں میزاب اور حجر اسود کے درمیان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ بھی
یہیں دفن ہیں۔ انتقال کے وقت تک حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد اور نسل کا سلسلہ حجاز،
شام، عراق، فلسطین اور مصر تک پھیل گیا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماعیل ؑ سے صاد ر ہونے والے دو معجزات کا
تذکرہ ملتا ہے۔
۱۔ ایک شخص انتہائی لاغر
اور بیمار بھینس آپ ؑ کے پاس لایا اور عرض کیا کہ بھینس دودھ نہیں دیتی، گھر میں
تنگدستی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ نے اپنا ہاتھ بھینس کے تھنوں پر پھیرا بھینس کے تھنوں
میں دودھ اتر آیا۔
۲۔ ایک روز چند آدمی آپ
ؑ کے پاس آئے۔ گھر میں مہمانوں کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ آپ ؑ نے تھوڑا سا
آب زم زم ایک دیگ میں ڈال کر، دیگ پر رومال ڈال دیا۔ جب دیگ سے کپڑا اٹھایا گیا
تودیگ تیار تھی اس میں لذیذکھانا موجود تھا۔ قرآن پاک میں حضرت اسماعیل ؑ کے اوصاف اور آپ ؑ کی فضیلت و بزرگی کا
تذکرہ متعدد بار اس طرح ہوا ہے۔’’
اور یاد کرو کتاب میں اسماعیل ؑ کا ذکر، تھا وہ وعدہ کا سچا اور تھا
رسول نبی، اور حکم کرتا تھااپنے اہل کو نماز کا، اور زکوٰۃ کا، اور تھا وہ اپنے
پروردگار کے نزدیک پسندیدہ۔‘‘
(سورۃ مریم۔آیت54تا55)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان