Topics
خدا
بھلا کرے جنت کے ٹھیکیدار بھائی رضوان کا کہ انہوں نے مجھے یہاں بھی چین سے نہ
بیٹھنے دیا۔ بارگاہ قدسی میں عرض و معروض کر کے میرے پیر یہاں سے بھی اکھاڑ دیئے
اور یہ حکم نامہ بجھوا دیا کہ اب جنت میں پہنچ کر کچھ دن ساکنان فردوس کو بھی اپنی
تعلیم سے فائدہ پہنچائوں۔
مجھے
خدمت علم اور تعمیل ارشاد خالق کائنات سے ہی اتنی فرصت نہ تھی کہ جنت اور آسمان
ہفتم کے فرق پر غور کرتا یا ان میں سے ایک دوسرے کو فضیلت دیتا۔ حکم ہوا کہ جنگ
میں جا کر وہاں والوں کے ارمان بھی پورے کردو نہ انکار کی مجال، نہ اقرار کی ہمت،
چنانچہ بصد رنج و یاس اپنے ان ساتھیوں کو چھوڑ کر جنت میں چلا گیا۔
جنت
میں داخل ہوتے ہی ٹھیکے دار صاحب نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ میرا استقبال کیا۔
کہنے کے لئے تو یہ حضرت ’’دربان فردوس ‘‘ ہیں۔ لیکن سچ پوچھو تو بڑے مزے کرتے ہیں۔
ان کی زندگی ایسے چین سے گزرتی ہے کہ اس کی مثال موجودہ دنیا کی کوئی راحت نہیں دے
سکتی۔
حضرت
دیکھتے ہی کہنے لگے، آپ بھائی عزازیل ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ آپ کی زیارت کر
سکیں اور آپ کی بہترین تعلیم اور قابل تقلید زندگی سے کچھ سبق حاصل کر سکیں۔ میں
نے انکساری کے لہجہ میں (واضح رہے کہ اس زمانہ میں خاکساری کا رواج نہیں تھا اس
لفظ کی جگہ انکساری کا لفظ استعمال ہوتا تھا) ان سے بہت کچھ کہا سنا اور آخر میں
کہا کہ میں رب العزت کا ایک ادنیٰ اور حقیر بندہ ہوں اور مجھ سے اس سلسلہ میں جو
کچھ بھی خدمت ہو سکتی ہے اسے اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہوں۔
بھائی
رضوان بولے۔ اگر کچھ دن ہمیں بھی درس و تدریس سے استفادہ کا موقع دیا جائے تو ہم
اہالیان جنت اپنی خوش نصیبی سمجھیں گے۔
ساکنان
فردوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے پھر کہا کہ یہ سب بھی آپ کے رہین منت
ہونگے۔ اگر آپ ہماری التجا قبول فرما کر کچھ روز خلد میں قیام کریں۔ میں نے کہا
آپ کو بھی معلوم ہے کہ پروردگار نے مجھے حکم بھیجا ہے کہ چند یوم آپ کے ساتھ بھی
گزار دوں ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں یہاں نہ رہوں یا میری کیا مجال ہے کہ تعمیل
حکم سے سرکشی کا ارادہ بھی کر سکوں۔
اس
کے بعد رضوان نے بااجازت خداوندی مجھے تمام خلد کی سیر کرائی۔ جی باغ باغ ہو گیا۔
وہ کچھ دیکھا جو کبھی نہ دیکھا تھا اور شاید اب کبھی نہ دیکھ سکوں۔
الغرض
میں جنت میں رہنے لگا اور وہاں بھی وہی وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ
دستور مقرر ہوا کہ ایک مخصوص اور باعظمت مقام پر یاقوت و احمر کا منبر تیار ہوتا
تھا اور اس پر ایک نوری علم ایستادہ کیا جاتا تھا۔ اس منبر پر میں وعظ کہتا تھا۔
ہر مجلس میں ملائکہ کی تعداد اتنی کثیر ہوتی تھی کہ ان کا شمار میری قوت شماریہ سے
بھی باہر تھا۔ سوائے عالم الغیب کے اس تعداد کو کوئی نہیں جانتا۔
درس
و تدریس کا یہ مبارک سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا۔ ملائکہ نے اس زمانہ میں مجھ سے
بہت کچھ حاصل کیا گو ساتوں آسمانوں سے ہزار ہا گنا زیادہ فردوس میں ملائکہ نے مجھ
سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن میرے خیال میں وہ اتنا ہے جیسے کسی بغیر ساحل کے سمندر میں
سے کسی نے چند قطرے لئے ہوں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔