Topics
ایک روز حضرت نوح ؑ نے کہا۔ اے ابلیس!
تو کتنا بیوقوف ہے اپنے ہاتھوں تباہ ہو کر بھی تجھے عقل نہیں آئی۔ کم بخت اگر تو
چاہتا تو آج بڑے درجوں پر ہوتا۔ بھلا تجھے اپنے پروردگار کی نافرمانی سے کیا ملا؟
میں
نے کہا۔ جناب جو کچھ ہو چکا ہے اس کا تذکرہ ہی بے کار ہے۔ البتہ اگر کوئی صورت ہو
کہ میں دوبارہ پھر وہی عظمت حاصل کر سکوں تو بتایئے تا کہ میں اس پر عمل کروں۔ یہ
سن کر حضرت نوح ؑ نے کہا۔ اللہ تعالیٰ بڑا غفور الرحیم ہے تو اپنے گناہوں کی سچے
دل سے معافی مانگ اور آئندہ کے لئے توبہ کر۔ کیا عجب وہ اپنی کریمی کے صدقے میں
تیری خطائیں معاف کر دے۔
میں
نے جواب دیا۔ اے نوح ! میں جانتا ہوں کہ میری توبہ بارگاہ خداوندی سے ٹھکرا دی جائے
گی کیونکہ میں نے گناہوں کی انتہا کر دی ہے۔ ہاں ایک صورت سے مجھے معافی مل سکتی
ہے اگر آپ میری سفارش کر دیں تو عجب نہیں پروردگار میرے گناہ معاف کر دے۔
یہ
سن کر نوح ؑ نے کہا۔ اچھا، میں بھی تیرے لئے دعا کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے بڑے
خلوص کے ساتھ میری سفارش کی۔ حکم ہوا کہ
’’اے
نوح! تمہاری کشتی میں آدم کا تابوت رکھا ہے۔ اگر ابلیس تلافی کے لئے اب بھی اس
تابوت کو سجدہ کر لے تو ہم اس کا پہلا گناہ معاف کر دیں گے۔‘‘
حضرت
نوح ؑ اس وحی سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ اگر تو اس تابوت کو
سجدہ کرے تو پروردگار تیرے گناہ معاف کر دے گا۔
میں
نے یہ سن کر جواب دیا۔ اے نوح ؑ تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو جس نے زندہ آدم ؑ کو
(جو اللہ کا خلیفہ اور مقرب تھا) جب اس وقت سجدہ نہیں کیا تو آج خاک کے ڈھیر کو
کیا سجدہ کرے گا۔
حضرت
نوح ؑ نے بہتیرا سمجھایا مگر میں نے ایک نہ مانی اور مانتا بھی کیسے ذرا آپ ہی
فیصلہ کیجئے۔ جو شخص آرام کی زندگی اور ان کے تقرب کو دیکھ کر بھی سجدہ کرنے کا
روادار نہ ہوا۔ وہ ایک بے جان خاک کے ڈھیر کے سامنے کیوں کر جھک سکتا ہے۔ چنانچہ
میرا جواب سن کر حضرت نوح ؑ مایوس ہو گئے۔ اور میں نے بھی اس بحث کو طول دینا
مناسب نہ سمجھا اور خاموش ہو گیا۔ مگر اس واقعہ سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ
اللہ میاں مجھے معاف کرنا چاہتے تھے۔
میرے مشہور کارناموں کی تفصیل
یہ
پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر اپنی زندگی کے تمام واقعات کو تفصیل کے ساتھ لکھوں تو
دفتر کا دفتر بن جائے گا۔ اور پھر اس کا شائع ہونا ناممکن ہو جائے گا۔ اس واسطے
اپنی زندگی کی ابتدا سے آج تک کے مشہور کارناموں کی مختصر فہرست لکھ دینا ہی
مناسب سمجھتا ہوں۔ امید ہے کہ اسی سے بہت کچھ نتیجہ اخذ کر لیا جائے گا۔
یہ
تو بتا چکا ہوں کہ جنت سے حضرت آدم ؑ اور حوا وغیرہ کو خارج کرانے میں میرا ہاتھ
تھا۔
یہ
بھی لکھ چکا ہوں کہ حضرت آدم ؑ کے بیٹے ہابیل کو ان کے سگے بھائی سے قتل کرا دیا
اور یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ حضرت ادریس ؑ کی امت کو بت پرستی سکھانے اور ان سے
پہلے قابیل کے زمانہ میں آتش پرستی کی ایجاد کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔
حضرت
نوح ؑ کی قوم کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ نوح ؑ کو خوب ستائیں اور اس کا انجام نوح
ؑ کی پریشانی اور تمام عالم کی غرقابی ہوا۔
قوم
عاد و ثمود کو حضرت ہود ؑ اور حضرت صالح ؑ کی بددعا کے پردے میں غارت کرایا۔ نمرود
کو حضرت ابراہیم ؑ کے خلاف بھڑکا کر انہیں آگ میں زندہ ڈالنے کا مشورہ دیا۔ حضرت
لوط ؑ کی امت کو خلاف فطرت افعال میں پھنسا کر تباہی کے غار میں پہنچا دیا۔ حضرت
اسماعیل ذبیح اللہ کے دل میں وسوسہ قتل ڈالا۔ حضرت یعقوب ؑ کے بیٹوں کو آپس میں
متفق کر کے یوسف ؑ کے خلاف بھڑکایا اور انہیں ایذا دلوائی۔ حضرت ایوب ؑ کو امتحان
خداوندی کے سلسلے میں خوب رسوا کیا۔ فرعون کو مجبور کر کے خدائی کا دعویٰ کرایا
اور اسے ابھارا کہ وہ حضرت موسیٰ ؑ سے مقابلہ کرے اور اس کے بعد فرعون کو فوجوں
سمیت دریا میں غرق کرایا۔ ہارون ؑ کے زمانہ میں سامری کی معرفت گو سالہ پرستی
کرائی اور یہ دیکھ دیکھ کر ہارون ؑ کلستے رہے۔ شداد سے خدائی کا دعویٰ کرا کے ایک
جنت بنوائی اور پھر مایوس کرا کے جہنم واصل کرایا۔ قارون کو دولت کی محبت میں
پھنسا کر تباہ کیا۔ سلیمان ؑ کو انگوٹھی کا چکمہ دے کر فتنہ جنہ میں پھنسا دیا۔
یونس ؑ کو مچھلی کے حوالے کیا۔ زکریا ؑ کو مریم سے زنا کا الزام لگا کر آرہ سے دو
ٹکڑے کرائے۔ یحییؑ کو ایک گناہگار عورت کے معاملہ میں بے گناہ قتل کرایا۔ عیسیٰ ؑ
کو ان کے قوم کے ہاتھوں سخت ایذ اپہنچائی۔ ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور
مجبور کر کے آسمان پر بھجوایا۔ تا کہ ہدایت خلق سے باز رہ سکیں۔ حضرت محمد ﷺ
کے خلاف قریش مکہ کو ابھارا اور آخر کار انہیں ہجرت کرنا پڑی۔ خلفائے راشدین کو
شربتِ شہادت کا مزہ چکھوایا۔ یزید کو اہل بیت نبویﷺ
کے قتل پر آمادہ کر کے اپنے جی کی پیاس بجھائی اس کے علاوہ ہزار ہا مقتدر
بادشاہوں کے ہاتھوں لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کا خون بہایا۔ بے شمار متقی اور
پرہیز گاروں کو گناہ کی طرف مائل کر کے ان کی ریاضتیں ختم کرائیں۔ مسلمان بادشاہوں
سے مسلمان پیغمبروں کے خلاف اور مسلمانوں سے ہندو اتاروں کے خلاف زہر اگلوائے اور
کشت و خون کرایا۔ کبھی تعصب کا بھوت بن کر غیر مسلموں میں پہنچا تو ’’کبھی اسلام
خطرے میں ہے‘‘ کی مجسم صورت بن کر مسلمانوں کے تصور میں جا سمایا۔ اور اپنا مطلب
حاصل کیا۔ کسی کے دماغ میں دعویٰ پیغمبری کا خبط پیدا کیا تو کسی کے خیال میں مہدی
آخر الزماں کی اسکیم لے کر پہنچا۔ غرض کہاں تک عرض کروں کہ میں اور میری ذریات جس
خلوص کے ساتھ اپنا مشن چلا رہے ہیں۔ اگر اس کا عشر عشیر بھی انسان کے قبضہ میں
پہنچ جاتا تو پارس ہو جاتا ۔
مسلمانوں کے ۷۲ فرقے اور ان کی تفصیل
شیعہ،
سنی، وہابی، غیر وہابی، مقلد، غیر مقلد کا جھگڑا بھی نیاز مند کے مقدس ہاتھوں سے
تیار ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان سب ایک تھے ان کا مذہب، اعتقاد سب کچھ یکساں
تھا کسی کے عقیدے میں کوئی فرق نہ تھا لیکن جب ما بدولت نے اس طرف توجہ فرمائی تو
بہت سے مسلمان جو کبھی اہل سنت والجماعت کہلاتے تھے۔ اِدھر اُدھر بھٹکا دیئے۔ شیعہ
سینی کی تفریق اور ان کے معقول اسباب ذہن نشین کرائے۔ وہابی اور غیر وہابی کی بحث
کو مضبوط بنایا اور جب اس پر بھی میرے دل کی پیاس نہ بجھی تو بھٹکے ہوئے مسلمانوں
کو جمع کر کے مختلف قسم کے نئے عقیدے ایجاد کئے اور انہیں شہرت دی۔ چنانچہ اہل سنت
والجماعت میں سے کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اپنے مشن کی طرف بلایا اور جب کافی تعداد
ہو گئی تو ان کو بھی چھ فرقوں میں تقسیم کر دیا تا کہ یک جہتی اور اتفاق سے میرے
مشن کو ٹھیس نہ پہنچ سکے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یہ تقسیم بھی زیادہ کارگر نہیں رہی
تو میں نے ان ہی چھ فرقوں کو بہتر فرقوں کی شکل میں تبدیل کر دیا۔
پہلے
تو صرف ایک فرقہ تھا یعنی اہل سنت والجماعت گو اس میں بھی شیعہ، سنی اور وہابی
وغیرہ۔ قادیانی، غیر قادیانی کی بحث چھڑ گئی۔ لیکن میں نے سوچا ان لوگوں کو اپنی
جگہ لڑنے دو اور ان کے علاوہ ایک نئی جماعت کھڑی کر لو ممکن ہے کسی وقت مسلمان سر
ابھاریں تو یہ بہتر فرقیان کا مقابلہ کر
سکیں۔ چنانچہ حسب ذیل عقائد اور بھی ہیں جن کو عام طور پر قصد الشہرت نہیں دی گئی۔
(۱) فرقہ جبریہ (۲) فرقہ قدریہ (۳) فرقہ جہمیہ
(۴) فرقہ مرجیہ (۵) فرقہ خارجیہ (۶) فرقہ راضیہ
اور
ان ۶
فرقوں کو بھی ۷۲
فرقوں میں تقسیم کر دیا چنانچہ ہر فرقہ کے بارہ بارہ ٹکڑے ہوئے جن کی تفصیل یہ ہے۔
فرقہ جبریہ اور اس کی بارہ شاخیں
فرقہ
جبریہ شروع میں ایک ہی تھا لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کے بارہ ٹکڑے ہو گئے۔
جن کے الگ الگ نام ہیں اور الگ الگ عقیدہ:
مضطریہ:
ان
کا عقیدہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی سب خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ بندہ کا ذاتی طور پر
کچھ اختیار نہیں ہے۔
افعالیہ:
ان
لوگوں کا خیال یہ ہے کہ بندہ فاعل ضرور ہے لیکن اس میں یہ طاقت نہیں کہ کچھ کر سکے۔
معیہ:
ان
کا ایمان یہ ہے کہ خدا کی طاقت دیئے بغیر بندہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
تارکیہ:
اس
عقیدہ کے لوگوں کا ایمان یہ ہے کہ انسان پر سوائے ایمان کے اور کوئی چیز فرض نہیں
ہے۔
بحثیہ:
ان
کا مذہب یہ ہے کہ بندہ اپنے مقدر کا کھاتا ہے اس لئے کسی کو کچھ نہ دینا چاہئے۔
متمیہ:
ان
لوگوں کا ایمان ہے کہ وہ چیز نیکی سمجھی جانی چاہئے جس سے نفس کی تسلی ہو۔
کستانیہ:
ان
کا خیال یہ ہے کہ عمل کی کمی یا زیادتی پر عذاب و ثواب کا دارومدار ہے۔
حبیبہ:
ان
لوگوں کا اس بات پر یقین ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔
فکریہ:
اس
عقیدہ کے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عبادت الٰہی سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ انسان خدا کو
پہچاننے کی کوشش کرے۔
خوفیہ:
ان
کا مذہب یہ ہے کہ وہ دوست ہی نہیں جو اپنے دوست کو عذاب کی سختیوں سے ڈرائے۔
شیبہ:
ان
لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں قسمت کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر بات من جانب
اللہ ہوتی ہے۔
حجتیہ:
یہ
سمجھتے ہیں کہ ہر بات اللہ کرتا ہے۔ بندہ کسی حال میں بھی اپنے افعال کا ذمہ دار
نہیں ہے۔
فرقہ قدریہ اور اس کی بارہ شاخیں
یہ
فرقہ بھی شروع میں ایک ہی تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کے بھی بارہ ٹکڑے ہو گئے جن کی
تفصیل یہ ہے۔
احدیہ:
ان
لوگوں کے نزدیک فرض فرض ہے لیکن سنت پر عمل کرنا یا اسے اچھا سمجھنا ضروری نہیں۔
تنویہ:
ان
کا خیال یہ ہے کہ بندہ خدا کے اشارہ سے نیکی کرتا ہے اور شیطان کے اشارہ پر بدی
کرتا ہے۔
کیانیہ:
یہ
لوگ کہتے ہیں کہ افعال خود ہمارے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔
شیطانیہ:
ان
لوگوں کو خیال ہے کہ شیطان کا دنیا میں وجود ہی نہیں ہے یہ قصہ فرضی ہے۔
شریکیہ:
ان
کا مذہب یہ ہے کہ ایمان کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بندہ میں یہ شروع ہی سے ہو۔
وہمیہ:
ان
کو یقین ہے اس بات کا کہ ہم خواہ کوئی برا کام کریں اس کی سزا نہیں ملے گی۔
رویدیہ:
ان
لوگوں کا قیامت پر ایمان نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے دنیا ہمیشہ رہے گی۔
ناکسیہ:
ان
کا خیال ہے کہ اگر امام وقت کوئی غلطی کرے تو اس کو امامت سے خارج کر دینا ضروری
ہے۔
متبریہ:
ان
لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ گناہگار کواہ کتنی ہی توبہ کرے قبول نہیں ہو سکتی۔
فاسطیہ:
ان
کا مذہب یہ ہے کہ علم اور عبادت اور عقل کا حاصل کرنا ہر لحاظ سے انسانی فرض ہے۔
انظامیہ:
ان
لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ خدا کی ایک صورت ہے۔ اور اسے مجسم کہا جا سکتا ہے۔
متولفیہ:
ان
کا کہنا یہ ہے کہ خیر اور شر کی بحث میں انسان کا پڑنا ہی بیکار ہے کیونکہ ان
چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔