Topics
سنتا ہوں کہ انسانی دنیا کے بعض تاریخ
داں اصحاب میرے متعلق ایک نہایت ہی دلچسپ رائے رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ مجھے
فرشتوں نے قید نہیں کیا بلکہ ان کی رائے میں واقعہ یوں تھا کہ قوم جنہ کی بدافعالی
اور گناہ گاریوں کو دیکھ کر عزرائیل یعنی میں نے گوشہ تنہائی کو اپنے لئے پسند کیا
اور فساد کی دنیا سے دور کسی سنسان مقام پر خدا کی عبادت میں مصروف ہو گیا جب
فرشتے مفسدوں کا سر کچل کر فارغ ہوئے اور عزرائیل کو مصروف عبادت دیکھا تو انہیں
بہت تعجب ہوا اور پروردگار سے عرض کی کہ اگر حکم ہو تو اس زاہد و متقی کو ہم اپنے
ساتھ رکھ لیں کیونکہ یہ اس گناہ آلود دنیا کے لائق نہیں ہے اور ہمارے ساتھ اس کا
نباہ خوب ہو جائے گا۔ پروردگار کو تو منظور ہی یہ تھا لہٰذا اس نے فرشتوں کی التجا
منظور کی اور عزازیل کو آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رکھنا منظور کر لیا۔
خیر
اس طرح بھی میری کوئی توہین نہیں ہے اگر ایسا مشہور ہوا تو کچھ حرج نہیں بہرحال
مجھے صحیح واقعہ لکھنا ضروری تھا اور وہ وہی ہے جو میں نے پہلے لکھا ہے یعنی میں
لڑائی کے وقت بصورت فریق مخالف قید کیا گیا تھا اور فرشتوں نے میری عبادت پر نہیں
بلکہ میری کمسنی، معصومی اور خوبصورتی پر ترس کھا کر اور میرے اچھے ذہن اور ہوش سے
مختلف امیدیں وابستہ کر کے پروردگار عالم سے سفارش کی تھی۔
بہرحال
میں خود اپنی مرضی سے یا اپنی التجا سے آسمان پر نہیں گیا تھا۔ چند فرشتوں نے
سفارش کی اور پروردگار نے منظور کیا۔ میرا کیا بگڑتا تھا اور بگڑتا کیا۔ میرا تو
فائدہ اسی میں تھا کہ کسی صورت سے جان بچے۔ میں تو اپنی آنکھوں سے غداروں کا قتل
عام دیکھ چکا تھا یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ مجھ پر کسی کا کوئی احسان نہیں رہا اور
مفت میں جان بچ گئی۔ میں نے سوچا کہ خیریت اسی میں ہے کہ اس وقت جان بچنے کی خوشی
کا اظہار نہ ہونے پائے ورنہ فرشتے اور خدا
یہ سمجھ لیں گے کہ جان بچنے سے اس لڑکے کو خوشی ہوئی ہے۔ اور یہ خود چاہتا ہے کہ
اسے فنا نہ کیا جائے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر اس وقت پروردگار کو یہ اطلاع ہو
جاتی یا فرشتے کسی طرح یہ جان سکتے کہ میں اس انقلاب سے مسرور ہوں تو یقیناً کوئی
نہ کوئی شرط کسی وقت لگا دی جاتی۔ مگر وہ تو خیریت ہی رہی کہ فرشتوں نے التجا کی
اور پروردگار نے منظور کر لیا۔
مجھے
کیا خبر تھی اس وقت کہ میرا یہ خیال لچر ہے اور ایک نہ ایک دن مجھے تکلیف دے گا۔
میں تو یہ جانتا تھا کہ علم غیب کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ اگر اس وقت کوئی مجھ سے
یہ کہہ دیتا کہ پروردگار دور کی بات بھی جان لیتا ہے اور دل کا بھید بھی اسے کسی
طاقت س معلوم ہو جاتا ہے۔ سچ جانیئے ایک دفعہ تو میں اس مہربانی کا شکریہ ادا کر
رہی لیتا اور عجب نہیں اس وقت کی ممنونیت آج میرے کام آ جاتی۔ لیکن اب وقت گزر
چکا۔ اس کی تلافی ممکن ہی نہیں ہے۔ ہائے مجھے کیا خبر تھی کہ اس وقت کی روشنی طبع
مجھ پر بلائے ناگہانی کی طرح ٹوٹ پڑے گی۔ جب میں آسمان پر رہتا تھا تو بار ہا
فرشتوں نے مجھے یہ طعنہ دیا کہ ہم نے تمہاری سفارش کی۔ جان بچائی۔ پروردگار سے
التجائیں کر کے تمہیں زندہ رہنے کا موقعہ دیا اور ہمارے پروردگار نے اسے منظور
کیا۔ لیکن تم نے اس احسان عظیم کے عوض اس وقت کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا۔
اس
وقت تو نہیں مگر ہاں آج مجھے پچھتانا پڑ رہا ہے۔ اگر اس وقت ایک آدھ ظاہری سجدہ
کر لیتا تو میرا کیا بگڑتھا تھا۔ مگر میں اپنی عقل کے زعم میں رہا اور واقعات اپنا
کام کرتے گئے۔
ہاں
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ فرشتے مجھے گرفتار کر کے آسمان پر لے گئے۔ اس وقت
میری عمر دو سو بیاسی سال کی تھی۔ ممکن ہے کہ میری عمر آج کل کے زمانہ میں تعجب
انگیز ہو۔ کیونکہ میں نے اس عمر کے باوجود اپنی ذات کو گرفتاری کے وقت کم سن بتایا
ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں عمریں محدود نہیں ہوتی تھیں۔ یہ حد بندی
تو اسی وقت ہو سکتی ہے جب ابتدا کے بعد انتہا ہو اور آغاز کے بعد انجام ہو اور
پیدائش کے بعد فنا کی صورت مقرر ہو چونکہ ہمارے لئے فنا کا کوئی وقت نہ تھا۔ اس
واسطے ہزار ہا سال کی عمر تک کم سنی کا زمانہ شمار ہوتا تھا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔