Topics
دربار
خداوندی پر آج قہاری کی پوری شان برس رہی تھی۔ جمیع ملائکہ خوف زدہ تھے اور ہر
طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ عرش و کرسی لرزہ براندام تھے ارشاد ہوا کہ آدم ؑ کو
حاضر کرو۔
آدم
نیچی نگاہیں کئے ہوئے ڈرتے ڈرتے پیش ہوئے اور سجدہ عبودیت بجا لانے کے بعد دست بستہ
کھڑے ہو گئے۔ آواز آئی۔
اے آدم ؑ کیا ہم نے نہ کہا تھا تم سے
کہ ’’لا تقربا ہذۃ الشجرۃ‘‘ مگر تم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے تمہیں اچھی طرح
سمجھا دیا تھا کہ یہ درخت تمہارے لئے ممنوع ہے اور اگر اس درخت کا پھل کھائو گے تو
خسارے میں رہو گے۔ آخر کار آج وہ دن آ گیا کہ تم اس کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے
انصاف کے سامنے کھڑے ہو ہم نے تمہیں اپنا خلیفہ بنایا تھا کہ نیک اعمال اور اطاعت
کا مظاہرہ کر کے مخلوق کو سبق دو گے نہ کہ اس لئے کہ خلافت کو بدنام کرنے کا باعث
بنو وہ بھی صرف ایک معمولی ذائقہ حاصل کرنے کے لئے، پس تمام حالات پر غور کرنے کے
بعد ہم تمہارے لئے حسب ذیل دس سزائیں تجویز کرتے ہیں۔
پہلی
سزا
تمہارے
جسم کی ظاہری خوبصورتی یعنی حلہ ہائے بہشتی تم سے واپس
لئے جائیں۔ (اور اس پر عملدرآمد ہو چکا ہے)
دوسری
سزا
تمہاری
موجودہ زندگی کے ساتھ جنت سے اخراج اور اس کا عمل درآمد اسی وقت ہو گیا جب کہ تم
اس دربار میں طلب کئے گئے۔
تیسری سزا
عتابِ
الٰہی۔ جو اس وقت تم پر ہو رہا ہے اور جس کی پاداش تمہیں ہمیشہ خون کے آنسو
رُلائے گی۔
چوتھی
سزا
ستر
عورت کی معلومات۔ کہ یہ میرے خلیفہ آدم ؑ کے لئے سخت ممنوع تھی۔ (اس پر بھی عملدرآمد
ہو چکا ہے)
پانچویں
سزا
تم
سے اور تمہاری اولاد سے شیطان الرجیم کی عداوت قیامت کے دن تک۔
چھٹی
سزا
آدم
(آدمی) کے نام کے ساتھ عاصیؔ کا اضافہ کہ یہ بطور تاج عصیاں آدم کے ساتھ رہے گا۔
ساتویں
سزا
تمہاری
اور حوا کی مفارقت اور اس کا دل خراش صدمہ تمہارے قلب پر۔
آٹھویں
سزا
تمہاری
ہر حرکت پر شیطان کو آزادی کہ وہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو صراط مستقیم سے ہٹانے
کی کوشش کرے۔
نویں
سزا
تم
کو اور تمہاری اولاد کو دنیا کی مصیبتوں اور ہولناک تکلیفوں کا سامنا۔
دسویں
سزا
تلاش
معاش کی سوہان روح بننے والی تکلیف جس سے تم آج تک بے نیاز تھے۔
یہ
حکم سنانے کے بعد چند ملائکہ کو حکم دیا گیا کہ آدم کو زمین پر پھینک دو تا کہ یہ
اپنے کئے کی سزا پا سکیں۔ چنانچہ فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی اور مجھے تخت سلطنت سے
اتروانے والے حضرت آدم ؑ آسمان سے ٹپکا
دیئے گئے۔ جو بیچارے کوہ سر اندیپ پر آ کر گرے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔