Topics

دوست

 

” جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت رکھتا ہو تو اُسے چاہیئے کہ اُس کو بتلادے کہ وہ اُسے محبوب رکھتا ہے۔“                   (الحدیث)

”دین سر تا سر خیر خواہی یہ ہے کہ بندہ جو اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے دوست کے لئے بھی پسند کرے۔ یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے لئے بُرائی نہیں چاہتا۔“                     (الحدیث)

 

دوستی میں ہمیشہ میانہ روی اختیار کرنی چاہیے ۔ ایسی سرد مہری کا مظاہرہ نہ کیجئے کہ دوست کا دل ٹوٹ جائے اور نہ جوشِ محبت میں اتنا آگے بڑھیے کہ اس کو نبھا نہ سکیں۔ زندگی میں توازن، اعتدال اور مستقل مزاجی کامیابی کی علامتیں ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے۔ ” اپنے دوست سے دوستی میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت تمہارا دشمن بن جائے۔ اسی طرح دشمن سے دشمنی میں نرمی اور اعتدال کا  رویہ اختیار کرو ہو سکتا ہے وہ کسی وقت تمہارا دوست بنا جائے۔“ اپنے دوست کو کبھی اپنے سے کم تر نہ سمجھیئے ۔ خیر خواہی اور دل جوئی کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے دوست کو زیادہ سے زیادہ اُنچا اُنچا اُٹھانے کی کوشش کریں۔


” مجھ پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر اپس میں محبت اور دوستی کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوشنودی چاہیئے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔“                     (القرآن)


”نیک ساتھی اور بُرے ساتھی کی مثال مشک عنبر والے کی اور لوہار کی بھٹی دھونکنے والے جیسی ہے۔ مشک عنبر والا یا تو تمہیں کچھ دے گا یا تم اس سے کچھ خرید لوگے یا ( کم از کم ) تم خوشبو سونگھ لو گے (لیکن ) بھٹی دھونکنے والا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم بدبو سے متاثر ہوگے۔“                        (الحدیث)

 

دوستوں سے ربط وضبط اور تعاون باخصوص، اور دیگر لوگوں سے محبت بالعموم محض اللہ کی رضا کے لئے دیکھئے۔ اس میں منفعت اور غرض کا پہلو ہرگز نہ ڈھونڈیں۔ اپنی اور اپنے دوستوں کی مصروفیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے معاملات کو مرکزی حیثیت دیجئے۔ دوستی کو مستحکم قدروں پر چلانے اور تعلقات کو نتیجہ خیز اور استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کے ذاتی معاملات میں دلچسپی لیں اور ان کے مسائل سمجھ کر ان کے حل کرنے میں بھر پور تعاون کریں۔


حضور قلندر بابا اولیا ؒ نے فرمایا

انسان اگر چاہے تو وہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے اللہ سے ہم کلام ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ انسان کی روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے اور ” قالو بلٰی “ کہہ کر اللہ سے ہم کلام ہو چکی ہے۔


 







Topics


Uswa E Hasna

خواجہ شمس الدین عظیمی


مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے  ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح  طرح نہیں گزارا  جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔