Topics

ہم کس طرح سے غیب کی دنیا کو زیادہ اہمیت دیں


ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہم خواب دیکھتے ہیں اور نوع انسانی خواب ہی کے ذریعے غیب سے متعارف  ہے جبکہ عموماً آدمی خواب کو کس قدر گنجلک اور پیچیدہ دیکھتا ہے

            علم روحانیت کی رو سے غیب کی دنیا حقیقی اور مادی دنیا فکشن ہے تو ہم کس طرح سے غیب کی دنیا کو زیادہ اہمیت دیں یا اس کو حقیقی سمجھیں۔

                        ممتاز الاسلام                                  (ملتان)

جواب:   صرف خواب ہی کے بارے میں یہ بات درست نہیں ہے کہ آدمی صحیح دیکھتا ہے یا گنجلک و پیچیدہ دیکھتا ہے، وہ اس دنیا کو بھی گنجلک یا صحیح دیکھتا ہے۔ ایک انسان کے اندر غم، پریشانی، بغض و عناد ہے، دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے جذبات اس کے اندر زیادہ ہیں تو وہ دوسرے انسان کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر ایک انسان بے یقین ہے تو وہ  ہر انسان کو بے یقین دیکھتا اور سمجھتا ہے لیکن دوسرا انسان جس کے اندر یقین کا پیٹرن بن گیا ہے اور اس کو اپنی ذات کے بارے میں یہ ادراک ہو گیا ہے کہ میں خوش ہوں۔ میرا وجود اس دنیا میں عارضی ہے اور یہاں رہنے کے بعد بہرحال یہاں سے مجھے جانا ہے تو اس کی زندگی میں بڑا نمایاں فرق ہوتا ہے۔ یہی صورت خواب کی بھی ہے۔

            ہم جو خواب دیکھتے ہیں اس کی بھی دو نوعیتیں ہیں۔ ایک خواب  ہم اپنے فکشن حواس سے دیکھتے ہیں۔ ہم جو خواب دیکھتے ہیں اس خواب میں کوئی  Reality  ہے تو فکشن حواس سے دیکھنے کی وجہ سے ہم اس میں معنی غلط پہنا دیتے ہیں اور خواب الجھا ہوا ہو جاتا ہے اور اگر ہمارے اندر ایسی ایجنسی کام کر رہی ہے کہ ہم معنی صحیح پہنائیں گے تو  وہ خواب کبھی الجھا ہوا یا گنجلک نہیں ہوگا۔ وہ ہمیشہ مستقبل کی نشاندہی ہوگا، ہمیشہ آپ کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہوگا۔

            اگر ہمارے اندر Reality  کا خانہ ہی نہیں بنا ، حقیقت پرکھنے والی چیز ہی ہمارے اندر تخلیق نہیں ہوئی تو ہم خواب دیکھیں یا بیدار ہوں اس میں Reality        نہیں ہوگی۔ بات صرف زاویہ نگاہ کی ہے۔ ایک آدمی سرخ گلاس چشمہ لگاتا ہے۔ اس کو ہر چیز سرخ نظر آتی ہے حالانکہ وہ چیز سُرخ نہیں ہوتی۔ دوسرا آدمی نیلے رنگ کا چشمہ لگاتا ہے۔ دونوں آدمی قریب کھڑے ہیں۔ ایک آدمی ہر چیز سرخ  دیکھ رہا ہے۔ ایک آدمی نیلا دیکھ رہا ہے تو ہر آدمی کے دیکھنے کا مطلب  یہ  ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ چیز نیلی، سرخ ہے۔ اس چیز کی  جو اپنی حیثیت ہے وہ برقرار رہے گی۔ جیسا کہ اندھوں اور ہاتھی کا قصہ  ہے کہ جس کو جو محسوس ہوا اس نے وہی کچھ ہاتھی کے بارے میں بتایا۔ چونکہ ان کے اندر دیکھنے والی نظر کام نہیں کر رہی تھی تو چاروں آدمیوں نے ہر چیز نئی لیکن غلط بتائی۔ اس کے برعکس کوئی آنکھوں والا آدمی وہاں کھڑا ہوا تو ہاتھی کو ہاتھ پھیرے بغیر ہی اسے اس بات کا علم ہے کہ یہ ہاتھی ہے اور وہ فوراً ٹھیک بتا دے گا کہ یہ ہاتھی ہے۔

            خواب مسخ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر جو معنی پہنانے کی ایجنسی ہے وہ مسخ ہے۔ وہ حقیقت سے دور ہے ، اس کا غیب بینی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب چونکہ معنی پہنانے والی ایجنسی مسخ اور دھندلی ہے تو جب بھی خواب دیکھیں گے ، مسخ نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خواب کی تعبیر ہر آدمی نہیں دے سکتا۔یہ  پیغمبروں کا ایک علم ہے۔ جب کوئی آدمی کسی خواب کی تعبیر کے علم سے واقف شخص کو خواب سناتا ہے تو سب سے پہلے اس کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ خواب دیکھنے والے بندے کے اندر  دیکھنے والی ایجنسی کتنی شفاف ہے۔۔۔۔ یا کتنی دھندلی ہے۔۔۔۔۔ کتنی تاریکی اور کثافتوں کی اس پر تہیں پڑی ہوئی ہیں۔

            جو لوگ ریاضتوں سے، مجاہدے سے، مراقبے سے اور مشقوں سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو صیقل کر لیتے ہیں ان کے خواب ان کے لئے راہنمائی بن جاتے ہیں۔

             ان کے خواب ان کے لئے بشارت ہوتے ہیں۔ وہ خواب میں مستقبل کے اشارے دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور لوگوں کو مشورے دیتے ہیں۔ خواب اس لئے مسخ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والی ایجنسی انسان کے اندر مسخ ہے اور اس لئے مسخ ہے کہ وہ Reality  سے واقف نہیں ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔