Topics

کراچی اور پانی


             آج کل کراچی میں پانی کا بحران ہے۔ بچے عورتیںاور مرد سب پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ زمین میں بورنگ کروانے سے سمندر کے پانی کی طرح کڑوا پانی نکلتا ہے جو کہ عام استعمال کے قابل نہیں ہوتا۔ ازراہ  مہربانی کوئی حل بتائیں کہ لوگ جب بورنگ کروائیں تو زمین سے میٹھا پانی نکل آئے۔

 

جواب:   شہر میں گھر گھر کنویں جھد جائیں تو کچھ عرسے کے بعد کڑوا پانی انشاء اللہ میٹھا ہو جائے گا۔ جب تک پانی میٹھا نہیں ہوتا کڑوے پانی سے خارجی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی۔ فرش کی دھلائی، غسل خانوں اور کچن کے کام وغیرہ میں پینے کا پانی استعمال ہوتا ہے ، وہ ذخیرہ ہوتا رہے گا۔ پانی کی اتنی کمی نہیں ہے، منصوبہ بندی صحیح نہیں ہے۔ کراچی کا پورا شہر سیم زدہ ہو گیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی لائنیں اور سیوریج لائنیں جگہ جگہ سے زمین کے اندر ٹوٹ گئی ہیں، پانی تیزی کے ساتھ زمین کے اندر رس رہا ہے۔ اگر پانی ضائع ہونے سے بچا لیا جائے تو پانی کی قلت نہیں رہے گی۔

            خود انحصاری کے جذبہ کے ساتھ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں گھر گھر کنوئیں کھدوانے سے ان علاقوں میں سیم ختم ہو گیا ہے۔ وہاں پانی کی سطح تیس فٹ نیچے ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی نسل کے لئے مستقبل پر بھی نظر رکھیں اور اچھے مستقبل کے لئے اجتماعی پروگرام بنائیں۔ علیٰ ہذاالقیاس یہی حال پورے شہر کا ہے۔

            کہا جاتا ہے کہ کراچی شہر سطح سمندر سے نیچے ہے۔ اب جبکہ پانی کی سطح میں روز  بروز اضافہ ہو رہا ہے تو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ لوگ دولت کے پجاری بن گئے ہیں، دن رات جائز ناجائز کی تمیز کئے بغیر پیسہ جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی نہیں یہ  سوچتا کہ جب مستقبل محفوظ نہیں تو پیسہ کیا کام آئے گا۔

            لوگوں کے گھروں کے سامنے کوڑوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مارکیٹوں میں صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے، قوم اگر خود انحصاری کے اصول پر کام کرے تو سارا شہر تندرست ہو جائے گا۔ سلو پوائزن پلوشن    (Slow Poison Pollution) جو ہمیں آہستہ آہستہ نگل رہا ہے اور ہمارے اعصاب پر موت بن کر چھا رہا ہے ختم ہو جائے گا شہری اگر اپنے گھروں کے سامنے ایک ایک درخت لگا دیں تو کراچی زہر ناک دھوئیں سے محفوظ ہو جائے گا۔ مارکیٹ والے لاکھوں کماتے ہیں اگر سب دکاندار چندہ جمع کر کے صفائی کا انتظام کر لیں تو کوڑا کرکٹ نظر نہیں آئے گا۔ ذرا سی کوشش اور منصوبہ بندی سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں۔

            قوم میں شعور پیدا کرنے کے لئے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے کہ ٹیلی ویژن ایسے پروگرام پیش کرے جس میں شہریوں کو صفائی اور درخت لگانے کی ترغیب دی  جائے اور جس محلہ میں خوبصورت درخت ہوں اور صفائی کا بہترین انتظام ہو انہیں ٹیلی ویژن پر بلایا جائے۔ اسکرین پر محلہ کی منظر کشی کی جائے اور انعام دی جائے۔

            ارباب اختیار تھوڑی سی بھی توجہ کر لیں تو نصف مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ گھر میں بلا ضرورت پنکھے چلتے رہتے ہیں، پانی بہتا رہتا ہے یہ فضول خرچی ہے۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کو ناپسند کرتا ہے۔ من حیث القوم ہم پانی ، گیس کا اسراف نہ کریں تو یہی وسائل زیادہ دیر تک کام آئیں گے اور علاقہ کے لوگ سکھ چین کا سانس لیں گے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔