Topics

خوف اور انسان کے تین پرت


میرے بھائی کے دماغ میں یہ بات  نقش ہو گئی ہے کہ اگر وہ گھر سے باہر نکلیں گے تو ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔  نتیجہ میں انہوں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ ایکسیڈنٹ کا خوف ان کے دماغ میں اس طرح چمٹ گیا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ ہمارا گھر مذہبی قدروں کا پابند ہے گھر کے سب افراد نماز پڑھتے ہیں معاشی حالات بھی اچھے ہیں اس کے باوجود بھائی کے اوپر ایکسیڈنٹ کا خوف طاری رہتا ہے اور اس خوف نے ان کی زندگی بیکار کر دی ہے۔ وہ اب اپنی ملازمت پر بھی نہیں جاتے۔ عامل حضرات کا کہنا ہے کہ ان کے اوپر جادو کرایا گیا ہے۔ ہم  اس بات کو  ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ جب ہم کسی کا بُرا نہیں چاہتے تو کوئی ہمارا کیوں برا چاہئے گا۔ براہ کرم آپ بتائیں کہ اس خوف کی کیا وجہ ہے اور کیا واقعی ہمارے بھائی پر کسی نے جادو کرایا ہے؟

 

جواب:   کچھ لوگوں کے ذہن میں چھپکلی یا بلی کا خوف بیٹھ جاتا ہے اور یہ خوف ان کے دماغ سے اس طرح چمٹ جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں حالانکہ اس خوف کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی بس ایک مفروضے کے تحت خیال خوف بن کر دماغ پر چھا جاتا ہے۔

            میرے پا س ایک مریضہ لائی گئی جس کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ اس کے اوپر جادو کیا گیا ہے اور اس جادو کی وجہ سے کھانے کے بعد اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ شوہر اس بات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے۔ میری تشخیص بھی یہی تھی کہ محض وہم ہے۔ علاج کے سلسے میں ہضم سے متعلق کچھ دوائیں دے دی  گئی لیکن مرض میں افاقہ کی بجائے اضافہ ہو گیا اور درد کی شدت اتنی بڑھی کہ مریضہ کو دورے پڑنے لگے۔ اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ علاج پر کئی ہزار روپے خرچ ہونے کے باوجود ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق“ مرض دگر گوں ہو گیا۔ اس کے بعد نفسیاتی اسپتال میں ایک ماہ تک علاج ہوتا رہا۔

            پھر عامل حضرات سے رجوع کیا گیا جب کسی صورت فائدہ نہ ہوا تو مریضہ کو میرے پاس لایا گیا۔ میں نے نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ اس کے تمام حالات سنے اور ان سے کہا، میں دیکھ کر بتاؤں گا آپ کے اوپر کس قسم کا اثر ہے اور ان کو ہدایت کر دی کہ آپ  دو تین روز بعد معلوم کر لیں۔ پندرہ روز تک وہ اپنے بارے میں مجھ سے پوچھتی رہیں اور میں ان سے فرصت نہ ملنے کی معذرت کرتا رہا۔ جب ان کا یقین اس نقطہ پر مرکوز ہو گیا کہ میرے سوا ان کا علاج کوئی نہیں کر سکتا تو میں نے ان سے کہا ” آپ کے اوپر زبردست اثر ہے اور اس کا علاج یہ ہے آپ صبح اذان سے پہلے اتنے بج کر اتنے منٹ پر بند آنکھوں سے میرا تصور کر کے بیٹھ جائیں۔ میں اپنی روحانی قوت سے یہ اثر ختم کر دوں گا۔“

            اب آپ مریضہ کی زبان سے ان کا حال سنیئے۔ مریضہ نے مجھے بتایا” اس خیال سے کہ صبح وقت مقررہ میری آنکھ نہ لگ جائے میں ساری رات جاگتی رہی ۔ گھڑی دیکھ کر وقت مقررہ پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے اندر سے میرے دماغ میں لہریں منتقل ہو رہی ہیں۔ جیسے ہی یہ لہریں میرے دماغ سے ٹکرائیں میں نے دیکھا کہ میں ایک پرانے قبرستان میں ہوں۔ وہاں دو پرانی قبروں کے درمیان ایک جگہ میں نے مٹی کھو دی اور اس میں سے  ایک گڑیا برآمد ہوئی۔ گڑیا کے سینے میں دل کی جگہ میرا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے وہ گڑیا قبرستان کے کنوئیں میں ڈال دی اور اسی وقت پیٹ کا درد ختم ہو گیا۔“

            وقت مقررہ پر میں نے صرف یہ عمل کیا کہ اپنے خیال کی قوت سے مریضہ  کو بتایا کہ آپ کے اوپر جو اثر تھا وہ ختم ہو گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے ان کے اوپر کوئی جادو نہیں تھا۔

            قانون تخلیق کے تحت انسان تین پرت کا مجموعہ ہے۔ ایک پرت صفاتی ہے دوسرا پرت ذاتی ہے اور تیسرا پرت ذات اور صفات کو الگ الگ کرتا ہے ۔ اس ہی پرت کو ہم جسد خاکی کہتے ہیں۔ ہر پرت کے محسوسات جداگانہ ہیں۔

            ذات کا پرت وہم اور خیال کو تصور بنا کر جسد خاکی  کو منتقل کر دیتا ہے اور تصورات کو معنی  کا لباس پہنا کر خوشی یا غم کا مفہوم دیتا ہے۔ اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی خوب صورت باغ سے متعلق ہوں تو اس کے اندر رنگین لہریں ، رنگین روشنیاں ، خوشبو کے طوفان، حسن کے رحجانات رونما ہونے لگتے ہیں اور اگر ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہوں تو اس رنگین روشنیوں کی بجائے تاریکی ، خوشبو کی جگہ بدبودار حسن کی جگہ بدصورتی، خوشی کی  جگہ غم، امید کے بجائے مایوسی اور محبت کی جگہ نفرت جیسے رحجانات رونما ہونے لگتے ہیں۔

            اصل بات خیالات کو معنی پہنانے کی ہے ۔ خیالات کو جو معنی دیئے جاتے ہیں وہ تصور بن جاتا ہے اور پھر یہی تصور مظاہراتی خدوخال اختیار کر کے ہماری زندگی کی راہ متعین کرتا ہے ۔ غم و اندوہ سے لبریز یا آرام و آسائش سے بھر پور تصورات میں پیچیدگی، اخلاقی امراض کی بنیاد ہے۔ ہم جب زندگی کا تجزیہ  کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ زندگی کے شب و روز اور ماہ و سال آدھے سے زیادہ آزردگی اور مایوسی میں گزر جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے میں مسرت کی روشن قندیلیں اپنی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ وہ کون سی فضاء ہے جس میں شبنم موتی بن جاتی ہے۔ وہ کون سا ماحول ہے جو معطر اور پُرسکون ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔