Topics

سورۃ النحل میں حکمت


قرآن میں ہے

                        اور جو بکھیرے ہیں تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ۔ اس میں نشانی ہے

                        ان لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔۔ (سورۃ النحل)

            ازراہ کرم آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حکمت کی تشریح بیان کر دیں۔

 

جواب:   ہم جب زمین کے اوپر موجود نت نئی تخلیقات پر غور اور تفکر کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے واضح طور پر آجاتی ہے کہ تخلیق کا عمل ظاہر بین نظروں سے دیکھا جائے تو ایک نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم کسی درخت کی پیدائش کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں زمین کے اوپر موجود تمام درختوں کی پیدائش کا لامتنائی سلسلہ ایک ہی طریقے پر قائم ملتا ہے۔درخت چھوٹا ہو یا بڑا ، تناور ہو یا بیل کی شکل میں جڑی بوٹی کی شکل میں ہو پیدائش کا سلسلہ یہی ہے کہ زمین کے اندر بیج بویا جاتا ہے۔ زمین اپنی کوکھ میں اس بیج کو نشو نما دیتی ہے اور بیج کی نشو نما مکمل ہونے کے بعد درخت وجود میں آجاتا ہے لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پیدائش کا طریقہ ایک ہونے  کے باوجود ہر درخت اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور درخت کی یہ انفرادیت نامکمل نہیں ہوتی  مثلاً آم اور بادام کے درخت کو دیکھا جائے تو درخت کی حیثیت میں دونوں ایک ہیں۔ دونوں کی پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے، دونوں کا قد و قامت بھی ایک سا ہے لیکن آم کے تنے میں اور بادام کے تنے میں زمین  آسمان کا فرق ہے۔ آم کے درخت کا پھل اور بادام کے درخت کا پھل الگ الگ ہے۔

            اس طرح جب ہم پھولوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو پھول کا ہر درخت اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور اس انفرادی حیثیت میں اس کے پتے بھی الگ ہوتے ہیں، اس کی شاخیں بھی الگ ہوتی ہیں اور اس کے اندر جو پھول نکلتا ہے وہ بھی الگ ہے۔

            پھولوں کی بے شمار قسموں پر جب نظر جاتی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پھول میں اگر خوشبو ہے تو ہر پھول میں خوشبو الگ ہے۔پھول اگر رنگین ہے تو ہر درخت کا پھول الگ رنگ لئے ہوئے ہے۔ رنگ سازی کا یہ عالم ہے کہ کوئی پھول اس قدر سُرخ ہوتا ہے کہ نوع انسانی کے لئے  ایسا سرخ رنگ بنانا آسان کام نہیں ہے۔ پھول کے رنگوں میں کہیں سفید ، کہیں سبز اور کہیں اودا رنگ غالب ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے شمار رنگ زمین میں سے پھوٹتے رہتے ہیں۔

            اللہ تعالی کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے کہ زمین ایک ہے، ہوا بھی ایک ہے سورج کی روشنی بھی ایک ہے، پانی بھی ایک ہے، پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے۔ لیکن ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والی شے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضروری ہے۔ عالمین میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو بے رنگ ہو۔ یہ رنگ اور بے رنگ دراصل خالق سے مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ خالق سے مخلوق کو  جو چیز الگ کرتی ہے وہ رنگ ہے۔

            انسان کے اندر جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضلو کرم سے اس کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا علم بیدار کر دیتا ہے تو اس کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی بے رنگ خیال  جب رنگین ہو جاتا ہے تو ”تخلیق“ عمل میں آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق جو کچھ بھی ہے اس الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق  کے ظہار ہو گیا ہے ان کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اللہ کی ذات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ ایسی موراء ہستی ہے جو تمام مخلوقات سے الگ اور ممتاز ہے۔ ابدال حق قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اسرار و رموز سے پر کتاب ” لوح وقلم“ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ورائے بے رنگ فرمایا ہے۔ یعنی رنگ، بے رنگ اور ورائے بے رنگ۔

            اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنانے کا ارادہ فرمایا تو  جو کچھ اللہ کے ذہن میں موجود تھا اس کا ارادہ کیا اور فرمایا”کن“ اور ہر چیز وجود میں آگئی۔ عنی ورائے بے رنگ سے نزول کر کے اللہ تعالیٰ کے خیال نے ایک رنگ اختیار کیا جس کو سمجھنے کے لئے روحانی سائنس نے بیرنگی کا نام دیا ہے یعنی ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا  اور جس کی الفاظ میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔ ہھر اس بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وجود تخلیق میں آگئی اور یہی وجود مختلف صورتوں میں مختلف رنگوں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ مجسم اور متشکل ہو گیا۔ قانون سے یہ پتا چلتا ہے کہکائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر یا بنیاد مصالحہ رنگ ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔