Topics

صحت اور سکون قلب کا راز


روزنامہ جنگ ۱۹۹۲ء

            آپ کی تصانیف کا مطالعہ کر رہا ہوں اور حیرت زدہ ہوں کہ آپ دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ہزاروں خطوط کے جوابات دیتے ہیں۔ شاگردوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ تقریباً ۱۲ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ملک اور بیرون ملک سے بھی رابطہ قائم ہے۔ سرجانی ٹاؤن میں ایک بڑا روحانی مرکز قائم کیا ہے، وہاں ہر جمعہ کو سینکڑوں آدمیوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک بڑے بڑے  مراقبہ ہال کی بھی نگرانی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کا چہرہ ہر وقت گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا اور ترو تازہ رہتا ہے۔ ہر ایک سے نہایت اخلاق اور محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ جب کوئی آپ کے پاس بیٹھتا ہے تو اسے ایک عجیب قسم کا سکون اور اطمینان قلب کا احساس ہوتا ہے۔

            اس کے برعکس ہم لوگ جو کہ نوجوان ہیں اور ہر قسم کی طاقتور دوائیں خصوصاً وٹامنز وغیرہ استعمال کرتے رہتے ہیں پھر بھی محنت اور مشقت کے کام کرنے کے بعد غصہ یا جھنجھلاہٹ  کا شکار ہو جاتے ہیں اور سکون آور دوائیوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے باوجود سکون سے محروم  ہیں اور جب آپ کی عمر تک پہنچیں گے تو معلوم نہیں کیا حشر ہوگا۔

            آپ سے صرف میں ہی نہیں بلکہ ہر سکون اور صحت سے محروم شخص ضرور یہ پوچھنا چاہے گا کہ وہ کیا عمل ہیں اور وہ کون سے حالات ہیں جن کی وجہ سے آپ مسلسل محنت کے باوجود اس ضعیفی میں بھی صحت مند، چاق و چوبند اور پُرسکون رہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ سکون اور صحت کا راز طشت از بام فرمائیں گے۔

            اشتیاق احمد انصاری                         ( لاڑکانہ)

 

            میری صحت اور سکون قلب کا راز یہ ہے کہ میں نے جان لیا ہے کہ یہ دنیا فریب ِ نظر کے سوا کچھ نہیں ہے۔

            آپ یہاں کتنی دولت جمع کر لیں ، بڑے بڑے عالیشان محلات تعمیر کریں لیکن بالآخر یہ سب موت آپ سے چھین لے گی۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے جسم کی نشونما اس لئے کر رہا ہے کہ قبر میں کیڑے ہمارے جسم کے ایک ایک عضو کو اپنی خوراک بنائیں گے۔ ہم اپنی اولادوں کے لئے اگر اپنے اپنے ضمیر کے خلاف دولت جمع کرتے ہیں تو مرنے کے بعد یہ اولاد ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ اولاد عیش کرے گی اور بے ضمیر لوگوں کو فرشتے عذاب ِ جہنم میں دکھیل دیں گے۔

            یہ بات بھی میرے مشاہدے میں ہے کہ جب کوئی بات یا واقعہ پرانا ہو جاتا ہے تو دنیا بھول جاتی ہے۔۔۔۔ یہ محض ہمارا خیال ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔۔۔ ساٹھ سال سے زیادہ زندگی میں، میں نے یہ تو سنا ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔۔۔ یہ نہیں سنا کہ خدا کیا کہے گا۔

            میں خوش رہتا ہوں کہ میرا تعلق میرے خالق اللہ سے قائم ہے کہ الحمد اللہ میں دنیا میں رہتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میری زندگی عارضی ہے اور مجھے اپنے پیارے اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے اللہ کے پاس جانا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔