Topics

بے شمار مذاہب اور مسلک کیوں ہیں۔


عیسائیت،یہودیت، ہندومت، بدھ ازم، کنفیوشس ازم اور دوسرے تمام مزاہب ایک رب ، ایک خالق کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ تخریب نا پسندیدہ عمل ہے اور تعمیر پسندیدہ عمل ہے لیکن ہر مذہبی دانشور یہ کہتا ہے کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نجات ہے۔ جب ہر مذہب اور مسلک کے راستے پر چلنے میں نجات ہے تو بے شمار مذاہب اور مسلک کیوں ہیں۔۔۔ موجودہ سائنسی دور میں جبکہ ہر طرف سے مذہبی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہمارے لئے کون سا راستہ ہے کہ ہم نفرتوں کی دلدل سے نکل کراللہ کی پرتش کریں اور ہمیں اللہ کا عرفان مل جائے۔

 

جواب:   انسان عقل سے باہر کسی چیز کو اس لئے تسلیم نہیں کرتا کہ عقل ساری زندگی پر محیط نظر آتی ہے۔ انسانی زندگی کے ہر عمل میں عقل راہنما کردار ادا کرتی ہے۔ عقل انسان کو مجبور کرتی ہے کہ مذہب کو بھی عقل کی بنیاد پر قبول یا رد کرے۔ مذہب میں سب کچھ ہے۔ اس میں یقین کے ساتھ وسوسے اور شکوک و شبہات بھی ہیں۔ شک کا غلبہ ہو جائے تو ہم شکوک کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ یقین غالب آجائے تو ہمارے اوپر ایک خود فراموشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے لیکن یہ کیفیت اتنی عارضی ہوتی ہے کہ زندگی کے ماہ وسال میں اس کی کوئی حیثیت متعین نہیں ہوتی۔ ساری زندگی بے یقینی کے عالم میں گزر جاتی ہے۔

                                    مذہب میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ انسان بحیثیت مخلوق کے

                                    خالق کے رو برو حاضر ہے۔۔۔ گویا خالق اسے دیکھ رہا ہے

                                    اور مخلوق خالق کو دیکھتی ہو۔ بندہ خالق کائنات کو اپنی بات

                                    سنا سکتا ہو اور خالق کائنات کی آواز سن سکتا ہو۔۔۔

            لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

            مذہب عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی دانشور کبھی ایک مرکز پر قائم نہیں ہوتے جبکہ سب یہی کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے اور دنیا میں موجود ہر شخص اس کنبے کا فرد ہے۔

            سائنسی علوم کے پھیلاؤ اور ایجادات سے نوع کا شعور بالغ ہو گیا ۔ اب یہ ضروری ہے کہ قرآنی تفکر ( اسلامی سائنس) کی بنیاد پر اسلام کو سمجھا جائے اور حکمت و دانائی سے کام لیا جائے۔ رب کائنات اللہ کو کائنات کی حیات میں تلاش کیا جائے۔ کیا رات دن کا اختلاف ، کہکشانی نظام اور ان نظاموں میں مسلسل حرکت اس لئے نہیں ہے کہ ان کے اندر تفکر کیا جائے۔

                        الٰہی تخلیق میں تمہیں کہیں بھی عدم تناسب نظر نہیں ائے گا۔ بار بار دیکھو

                        کیا تمہیں کوئی ایسی کمی نظر آتی ہے۔                                                  ( سورۃ الملک)

                        اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کئے رات کو دن میں اور دن کو رات میں

                        تبدیل اور افتاب و ماہتاب کو مسخر کیا۔ یہ تمام کے تمام ایک معین

میعاد تک حرکت میں رہیں گے۔                                                                                            (سورۃ زمر)

نہ سورج چان کی رفتار میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے اور نہ لیل و نہار کے

سلسے میں کہیں بد نظمی موجود ہے۔ تمام سورج اور چاند نہایت باقائدگی

سے فضا میں تیر رہے ہیں۔                                                                                                                             ( سورۃ یٰسین)

            خالق و مخلوق کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہ بات امر لازم بن جاتی ہے کہ خالق کے اوصاف اور مخلوق کے اوصاف الگ الگ ہیں۔ خالق لامحدود ہے تو مخلوق محدود ہے۔خالق وجود کو تخلیق کرنے والی ہستی کا نام ہے۔ اگر مخلوق تفکر کے بغیر عقل سے اللہ کو سمجھنا چاہے تو اس کا مطلب  یہ ہگا کہ ایک بہت محدود شے نہایت لامحدود ہستی کے دائرہ میں سمجھنا چاہتی ہے۔

            یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گلاس میں پورا سمندر اندیل دیا جائے۔۔۔

            یہ کیسے ممکن ہے کہ رتی ، ماشہ تولنے والی عقل سے کائنات کے اسرار و رموز کا مشاہدہ ہو جائے۔۔۔

            آخری کتاب قرآن اعلان کرتا ہے کہ یہ ساری کائنات معین مقداروں سے تخلیق ہوئی ہے ، یہ معین مقداریں ہی سائنس ہیں۔

                                    ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور معین مقدار میں ہر چیز کو نازل کرتے ہیں۔ ( سورۃ الفجر)

            غیر مستند اور ناقابل تسلیم لغویات اور مذہبی تنفر کو مذہب میں سے  اگر نکال دیا جائے تو ہم صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں گے۔ جن مفروضات و عوامل کی تصدیق حقیقت کبریٰ سے نہیں ہوتی انہیں اگر رد کر دیا جائے تو مذہب ایک ایسی سائنس کی نشاندہی کرے گا جس میں توحید، ایمان و ایقان، عفو ودرگزر، مودت و رحمت کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ مذہب کی اساس اتحاد کی اساس بن جائے گی تو انسان کا ضمیر مطمئن ہو جائے گا اور یہ دنیا امن و آتشی کا گہوارہ بن جائے گا۔

                                    یہ لوگ مناظر ارضی کی سیر کیوں نہیں کرتے تاکہ ان کے دل

                                    سمجھنے لگ جائیں اور کان سننے کی نعمت سے بہرہ ور ہوں۔                                          (سورۃ الحج)

            اگر  دوسرے علوم کی طرح خالق کائنات کے ارشادات کی روشنی میں تفکر کیا جائے تو دوسرے تمام مذاہب پر اسلام کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔

                                    دراصل انکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل بے حس ہو جاتے ہیں۔

                                                                                    ( سورۃ الحج)

            مذہب کے بارے میں ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہے کہ لوگ دیکھے بغیر محض دوسروں کے کہنے پر یقی کر لیتے ہیں۔ جب مذہبی راہنما فزیکل سائنس کی طرح مذاہب کے بارے میں اپنی ریسرچ ( قرآنی سائنس) کی بنیاد پر تسخیر کائنات کے فارمولے تلاش کر لیں گے تو پوری نوع انسانی اسے قبول کر لے گی۔

                                    مذہب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ایک ذات ” خالق“ پر انسان کا  ایمان

 اور یقین کامل ہو اور وہ ذات جس طرح کہے اس پر عمل  کیا جائے۔

            واحد ذات ”خالق اکبر “ اللہ نے ہر مرحلے میں دعوت دی ہے کہ اس کی پھیلائی ہوئی کائنات میں تفکر کیا جائے کیونکہ تفکر کائنات کی بساط ہے۔

                                    کیا  یہ لوگ کائنات ارض و سما اور دیگر مظاہر تخلیق پر غور نہیں  کرتے۔ شاید ان کی موت قریب آگئی ہے۔                    (سورۃ الاعراف)

                                    ذرہ یا ذرے سے کم و بیش کوئی زمینی یا آسمانی چیز ایسی نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔

            قرآن پاک کی ان ایات کو جن میں تسخیر کائنات کے علوم ذخیرہ ہیں اگر بنیاد بنا کر  تحقیق و تلاش  کا کام  شروع کر دیا جائے تو اسلامی سائنس کا ارتقاء نہایت آسانی سے شروع ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہو گیا۔۔۔۔ خدا کرے ایسا ہو جائے تو تاریخ پھر ایک بار خود کو دہرائے گی اور روزانہ تبدیل ہونے والے مفروضہ نظریات کے پیچھے چلنے والے سائنس دان حقیق سائنسی علوم حاصل کرنے کے لئے اسلام کی طرف لازماً رجوع کریں گے۔

            ہم نے اگر الٰہی قانون سے رو گردانی اور کائنات کے مخفی علوم کا مشاہدہ نہیں کیا تو ہمارا وجود زمین پر بوجھ بن جائے گا۔

تم ایک بہترین امت ہو جسے اقوام عالم کی بہبود پر مقرر کیا گیا ہے۔(سورۃ آل عمران)

 

اگر تم نے (حکم الٰہی) سے روگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے۔

                                                                                                            (سورۃ محمد)

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔