Topics

روحانی تعلیمات میں یہ نسبت کیا کردار ادا کرتی ہے


نسبت یادداشت کیا ہوتی ہے۔۔۔۔ اور

            روحانی تعلیمات میں یہ نسبت کیا کردار ادا کرتی ہے۔

            مولانا محمد ادریس نقشبندی

 

جواب:   اللہ تعالیٰ نے انسان کے نقطہ ذات میں چار عالموں کو یکجا کر رکھا ہے۔

            ۱۔ عالم نور

            ۲۔ عالم تحت الشعور یا عالم ملائکہ مقربین

            ۳۔ عالم امر

            ۴۔ عالم خلق

عالم خلق سے مراد عالم ناسوت ہوتا ہے یعنی جس مادی دنیا میں ہم اور آپ رہتے ہیں اسے عالم خلق بھی کہتے ہیں۔ عالم امر کی وضاحت اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہماری کائنات، اجرام سماوی، موالید ثلاثہ (نباتات، جمادات اور حیوانات) وغیرہ ، کتنی ہی لا تعداد مخلوقات اور موجودات کا مجموعہ ہے۔

            کائنات کے تمام اجزاء اور افراد میں ایک ربط موجود ہے۔ مادی آنکھیں اس ربط کو دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں  اس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں مثلاً ہم ستارہ کو دیکھتے ہیں، چاند کو دیکھتے ہیں، پتھروں اور پہاڑوں کو دیکھتے ہیں حالانکہ یہ تمام اشیاء ہماری نوع سے تعلق نہیں رکھتیں ہمیں ان چیزوں کو دیکھنے میں کوئی دقت نہیں اُٹھانا پڑتی ہے۔ ہم ان تمام اشیاء کو صرف اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے اپنی کسی نوع کے فرد کو۔ یہ ایک عام بات ہے۔۔۔ذہن انسانی کبھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟۔۔۔

            روحانیت میں یا پیرا سائکالوجی میں کسی چیز کی وجہ تالاش کرنا ضروری ہے خواہ وہ کتنے ہی ادنیٰ درجہ کی چیز ہو۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس کی صفات ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت ذہن کی گہرائی سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو زیادہ واضح طریقے پر ہم اس طرح کہیں گے۔ شاہد (دیکھنے والا) جس وقت کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کی صلاحیت معرفت شے نگاہ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ گویا دیکھنے والا خود دیکھی ہوئی چیز بن کر اس کی معرفت حاصل کرتا ہے، یہ عالم امر کا قانون ہے۔

            مثال کو پھر سمجھیئے۔۔۔۔ ہم نے گلاب کے پھول کو دیکھا۔ دیکھتے وقت ہمیں خود کو گلاب کے پھول کی صفات میں منتقل کرنا پڑا پھر ہم گلاب کے پھول کو سمجھ سکے۔ اس طرح گلاب کے پھول کی معرفت ہمیں حاصل ہوگئی۔

            عالم خلق کا ہر فرد اپنے نقطہ ذات کو دوسرے شے کے نقطہ ذات میں تبدیل کرنے کی ازلی صلاحیت رکھتا ہے اور جتنی مرتبہ روز جس طرح چاہے وہ کسی چیز کو اپنی معرفت میں مقید کر سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر انسان کا نقطہ ذات پوری کائنات کی صفات کا اجتماع ہے۔

            اسی قانون کے تحت جب روحانی یا پیرا سائیکالوجی کا طالب علم اپنی توجہ اس سمت کی طرف مرکوز کرتا ہے جس سمت میں ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں یعنی اللہ کے لفظ کن کہنے سے پہلے کے نقوش کی طرف جب روحانی طالب علم توجہ مرکوز کرتا ہے تو یہ نقش اس کے قلب میں بار بار وارد ہوتے ہیں۔ عارف کے مشاہدے میں یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ کائنات کے ہر فرد، ہر ایک ذرہ میں اللہ بذات خود موجود ہے۔ کوئی کام ہو ، کوئی عمل ہو، کوئی بھی چیز ہو اسے اللہ کے سوا کچھ  بھی نظر نہیں آتا۔

            رفتہ رفتہ  یہ عمل غیر اختیاری اور ختیار دونوں طروزوں میں سامنے آتا ہے اور اس کے ذہن میں اللہ کی وحدت کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہتا پھر  نتیجتاً  آدمی اپنی انا ، اپنی مرضی، اختیار اور عقل و شعور سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اس پر جذب طاری ہوجاتا ہے۔ یہنسبت یا طرز فکر ”نسبت یا یاداشت“ کہلاتی ہے۔ حضرت خواجہ بہاؤ الحق نقشبند نے اس طرزِ فکر کو ” نشان بے نشانی“ کا نام دیا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔