Topics

سورج گرہن کی حقیقت


پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں۱ اگست ۱۹۹۹ء کو گذشتہ قرن لاسٹ ملینیم (Last Millennium)               کے آخری سورج گرہن کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ خلائی تحقیق سے متعلق اداروں، صدرگاہوں اور محکمہ موسمیات کے تحت اس قدرتی منظر کو دیکھنے اور اس کے نتیجے میں حقائق کو سامنے لانے کے لئے انتظامات کئے گئے تھے۔

            اس واقعے سے متعلق لوگوں میں اس قدر گہرا اثر پایا جاتا تھا کہ ہر مکتبہ فکر کے افراد نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ رائے ضروری دی۔ ماہرین نجوم نے سورج گرہن کی پٹی پر واقع ممالک کے مستقبل کے حالات کے متعلق پیشن گوئیاں شروع کر دی۔ کچھ لوگوں نے ملکی اور سیاسی حالات پر اس کے نحس اثرات پڑنے کی پیشن گوئیاں کیں۔ عام افراد کو زیادہ تر خوفزادہ دیکھا گیا۔ اکثر لوگ گھروں میں بند ہو کر بیٹھ گئے کہ کہیں سورج گرہن کے نحس اثرات سے انہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔

            آپ سے درخواست ہے کہ اپنی روحانی بصیرت کے تحت سورج گرہن کی حقیقت سے پردہ اُٹھائیں۔

            ڈاکٹر جمیل احمد صدیقی (کراچی)

 

جواب:   انسان کے اندر تجسس کی صلاحیت اسے اپنے اور دیگر مخلوقات و کائنات کے سر بستہ رازوں کو بے نقاب کرنے میں مگن رکھتی ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک نئی تحقیق سے صدیوں پرانی روایات اور نظریات پر اچانک ضرب پڑ جاتی ہے اور کچھ عرصے تک کے لئے لوگ اس نئی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ اندرونی خوف بھی ہو سکتا ہے جو ماحول میں مروجہ طریقے سے پیدا ہو جاتا ہے جس سے لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے مروجہ روٹین سے ہٹ کر کام کیا تو ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔

             سورج ، چاند ، زمین اور دیگر سیارے ستارے اور وسیع و عریض کہکشانی نظام کو دیکھنے سے انسان کی اپنی ذاتی حیثیت کچھ دیر کے لئے معدوم ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود انسان میں تجسس اور عزم اسے نئے نئے رازوں کو جاننے کی طرف مائل رکھتا ہے۔ ذہن میں ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ پورا سسٹم کس کنٹرول میں ہے۔۔۔ بہرحال انسان کا ذہن اس طرف متوجہ ہوتا ہے اور بغیر توجہ کے بھی اس سسٹم میں رہتے ہوئے اس کو قبول  بھی کر لیتا ہے ۔

            کچھ لوگ جو متجسس رہتے ہیں وہ نئے نئے نظریات کو جنم دیتے ہیں جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو حقیقت سے بے خبر سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اس کے نتائج میں زندگی گزار دیتے ہیں۔

            زمانہ قدیم سے سورج، چاند، زمین، آسمان اور دیگر سیاروں سے متعلق مختلف نظریات قائم ہوتے اور ختم ہوتے رہے ہیں۔ حقیقت سے کتنے باخبر ہوئے اور انہوں نے حقیقت کو کتنا ظاہر کیا اس کے بارے میں اب تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آسکی ہے۔ ہمارے اکثر بزرگ خواتین و حضرات جو اب اپنے پوتوں ، پوتیوں  اور نواسے، نواسیوں کو جوان ہوتے دیکھ رہے ہیں ، اب بھی توہماتی نظریات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ دور ایسا ہے کہ نئی نسل بغیر دلیل (Logic)   کے کوئی بات ذہنی طور پر قبول نہیں کرتی۔

            آج بھی سورج اور چاند گرہن کے اوقات میں حاملہ خواتین کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کے لئے  کہا جاتا ہے۔ انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ گرہن کے وقت سورج یا چاند کی طرف دیکھنے پر پابندی کوئی ایسا کام کرنا جس میں کوئی چیز کاٹنے مثلاً چھری یا چاقو سے سبزی یا پھل اور کپڑا کاٹنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے ماں کے رحم میں موجود بچے پر اثر پڑ سکتاہے۔

            اسٹیفن ہاکنگ جنہیں موجودہ دور میں نظریاتی فزکس کے آسمان کا درخشاں ستارہ تصور کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ ہر طبیعاتی نظریہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک مفروضہ  ہوتا ہے ۔ جسے کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ تجربات کے نتائج نظریے سے جتنی بھی مطابقت رکھتے ہوں یہ بات کبھی بھی وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ اگلی بار نتائج نظریے سے متضاد نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف آپ کسی نظریے کو صرف کسی ایک مشاہدے سے بھی غلط ثابت کر سکتے ہیں جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔

             علم فلکیات  (Astronomy)  کی اصطلاح میں گرہن کا مطلب ہے کہ سورج چاند یا کوئی اور چمکدار اجرام فلکی کی  روشنی کے درمیان کوئی رکاوٹ کی وجہ سے کسی اور مادی جسم یا اجرام فلکی کی مداخلت ہو جس کے باعث روشنی زمین تک نہ پہنچ سکے۔ سائنسی نقطہ نظر سے سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کرتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے اور چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔ جس کے باعث دن کے وقت سورج کی روشنی جزوی یا مکمل طور پر کچھ وقت کے لیے زمین پر نہیں پڑتی۔ چونکہ  چاند کا مدار ۹۔۵  کے زاویہ پر ترچھا ہے لہذا ہر نئے چاند  پر سورج  گرہن نہیں ہوتا۔ اس کے ترچھے پن کے باعث چاند کا سایہ زمین کے نیچے یا اوپر سے گزر جاتا ہے۔ سورج  گرہن نئے چاند کے موقع پر ہوتا ہے اس کو احتاق قمر بھی کہتے ہیں۔ سالانہ سورج گرہن کی تعداد ۲ سے لے کر ۵ تک ہو سکتی ہے۔

            مکمل سورج گرہن یعنی جب چاند سورج کے سامنے مکمل طور پر آتا ہے ایک شاندار منظر پیش کرتا ہے۔ چاند ، زمین اور سورج کے ایک لائن میں آ نے کے باعث  سورج کی چمکدار سطح Photosphere چھپ جاتی ہے جبکہ سورج کے اطراف رنگین  ہالا Chromosphere  اور چمکدار ہالہ یعنی Corona کچھ وقت کے لئے نظر آتا ہے۔

            مکمل سورج گرہن کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نو منٹ ہو سکتا ہے۔ Astronomers کی تحقیقات کے مطابق مکمل سورج گرہن ۹ منٹ  کے وقفہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔ جزوی سورج گرہن  میں سورج کے گرد رنگین ہالہ یعنی  Chromosphere  اور چمکدار ہالہ یعنی کرونا   (Corona)  کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔

            کائنات کی حقیقتوں سے باخبر ہونے کے لئے انسان کا سفر جاری ہے۔ تاریخ انسانی میں دو طرح کے افراد کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ایک وہ  جو حقیقت آشنا ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ حقیقت آشنا طرزِ فکر کے افراد پیغمبر ان علیہ السلام ہیں یا وہ افراد ہیں جو پیغمبرانہ طرزِ فکر کے حامل ہیں، پیغمبرانِ علیہ السلام کی طرزِ فکر یہ کہ خالق کائنات اللہ نے ہر شے کو دو رخ میں تخلیق کیا ہے۔ شے کا ایک رخ ظاہر اور دوسرا رخ باطن ہے۔ نوع انسانی کا تجربہ یہ ہے کہ اس کا انہماک ظاہری رخ میں زیادہ رہتا ہے چناچہ باطن یا حقیقت سے بے خبر رہتا ہے۔ جب کہ زندگی میں اسے کبھی نہ کبھی خواب کی کیفیت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

            پیغمبرانہ طرزِ فکر اور علم نبوت کے حامل افراد کو علمائے باطن کہا جاتا ہے۔ علمائے باطن پیغمبروں کے نقش قدم پر چل کر پہلے خود اپنی حقیقت یعنی باطن سے واقفیت حاصل کر کے خالق کائنات کا تعارف حاصل کرتے ہیں اور پھر نوع انسانی کو بھی اس کا درس دیتے ہیں۔ تاریخ انسانی میں ایسے افراد ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔

            علمائے باطن میں سے موجودہ دور کی ایک ہستی حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے نوع انسانی کو دور ِ جدید کے تقاضوں کے مطابق حقیقت آشنا کرنے کے لئے ایک نظام ترتیب دیا ہے۔ سید نا حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کے حکم سے نوع انسانی کے لئے روحانی علوم کے فارمولوں پر مبنی کتاب لوح و قلم تحریر کی۔

            سائنس نے جتنی تحقیق و تلاش کی ہے اس کا سہرا بلا شبہ سائنسدانوں کے سر پر سجا ہوا ہے ۔ سائنس جو کچھ کہتی ہے اس کا تعلق مادیت کے زیرِ اثر مشاہدے سے ہے۔ جیسے جیسے تلاش آگے بڑھتی ہے اور اس تلاش میں تفکر  گہرا ہوتا ہے تو مشاہدات میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم نظریاتی مشاہدہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ مادی وسائل کو بروئے کار لا کر کسی چیز کو سمجھا گیا ہے۔ یعنی جو چیز بھی دیکھی گئی ہے اس کے دیکھنے کے عمل میں مادیت کا عمل دخل ہے جبکہ مادیت بجائے خود ایک مفروضہ ہے۔ مفروضہ سے مراد یہ نہیں ہے کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ نتیجہ ضرور مرتب ہوتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نتائج میں حقائق کا کتنا عمل دخل ہے اور حقیقت ثابتہ پر سے کتنا پردہ اُٹھا ہے۔

            اب ہم  علماء باطن کی طرزِ فکر سے مشاہدہ کئے گئے نظام شمسی سورج، چاند اور زمین کے متعلق اور سورج گرہن کی حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ زمانہ قدیم کے ماہرین فلکیات ہوں یا زمانہ جدید کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج میں روشنی ہے، تپش ہے جبکہ علمائے باطن یہ کہتے ہیں کہ سورج میں روشنی نہیں ہے ۔ اصل میں زمین روشن ہے۔ زمین محوری اور طولانی حرکت میں گردش کر رہی ہے۔ روشن زمین کا انعکاس سورج کے اوپر ہوتا ہے اور سورج کا یہ انعکاس دھوپ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔

                                      قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی اور قسم ہے چاند کی اور

                                      سورج کے پیچھے آئے اور قسم ہے دن کی جب ظاہر کرے اس

                                      کو اور رات کی جب ڈھانک لے اس کو۔                       ( سورۃ الشمس)

            زمین ایک گلوب ہے جو اپنے  مدار پر ہر وقت متحرک رہتی ہے زمین کے دو وجود ہیں ایک وہ جو ظاہری اور زمین کا دوسرا وجود باطنی ہے۔ زمین کا باطنی وجود ایسی ماورائی لہروں سے بنا ہوا ہے جو براہ راست نور سے فیڈ ہوتی ہے۔

            یہ روشنیاں ماورائے بنفشی شعاعوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ کسی بھی مادی وسیلے سے نظر نہ آنے والی یہ روشنیاں سورج کے اوپر منعکس ہوتی رہتی ہیں۔۔ سورج ایک ایسا سیاہ طباق یا توے کی طرح ہے، جس میں اتنی تاریکی اور سیاہی ہے کہ دنیا میں لاکھوں سال میں رائج الفاظ میں اس تاریکی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس سیاہ توے یا سورج پر جب ماورائی لطیف روشنی پڑتی ہے تو سورج سے منعکس ہو کر زمین پر آتی ہے اور یہی وہ روشنی ہے جس کو دھوپ کہتے ہیں۔

            روحانی آنکھ سے نظر آنے والا چاند اس کے برعکس ہے جو ٹیلی اسکوپ دیکھتی ہے۔ روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ چاند پر پہاڑ ، جھیلیں، تالاب اور ریگستان ہیں۔ تالاب اور جھیلوں کے پانی میں پارے کا عنصر غالب ہے اور یہ پانی پارے کی طرح چمکدار ہے۔ چاند کی فضا میں گیس کی بو ایسی ہے ، جیسے ویلڈنگ کرتے وقت آتی ہے۔ چاند کی زمین پر چہل قدمی کرتے وقت جسم لطیف محسوس ہوتا ہے۔ اتنا لطیف جو ہوا میں آسانی سے اُڑ سکتا ہے لیکن لطیف ہونے کے باوجود جسم ٹھوس رہتا ہے۔ چاند پر کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔ چاند ایک سیر گاہ ہے جہاں جسم مثالی جا سکتا ہے۔ دنیا کا کوئی فرد اس وقت تک چاند میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک جسم مثالی سے واقف نہ ہو۔ نہ صرف یہ کہ جسم  مثالی سے واقف ہو بلکہ اپنے ارادے اور اختیار سے جسم مثالی کے ساتھ سفر کر سکتا ہو۔ جس طرح روحانی نظر سے چاند زمین اور سورج کی اصل ماہیت سے مختلف نظر آتی ہے اس طرح روحانی نظر سے سورج گرہن کا میکانزم بھی مختلف نظر آتا ہے۔

            سورج اور چاند کی گردش ہر باشعور آدمی کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ مخلوق کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں ایک طرز کے حواس کا تعلق رات اور چاند سے ہے اور دوسرے حواس کا تعلق دن یا سورج  سے ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔