Topics

"راسخون فی العلم " اور تبلیغ


میں دین اسلام کے فروغ کے اہم شعبہ ”تبلیغ“ سے وابستہ ہوں۔ تحریر و تقریر سے واسطہ رہتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اچھا برا ردِ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب خالصتاً اللہ کے لئے کوئی بات کہوں تو میری بات لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔ موجودہ دور میں علمائے کرام جو کچھ بتاتے ہیں اس کا لوگوں پر اثر نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے ہم خود بے عمل ہوں گے تو ہماری بات کس طرح  لوگ قبول کریں گے۔

            دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم کہتے تو بہت کچھ ہیں لیکن ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے کہ ہمارے پاس علم کی کمی ہے اور علم کی کمی سے ”راسِخُونَ فِی العِلَم“ جیسا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ تبلیغ کے سلسلہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں مشورہ عنایت کریں۔

 

جواب:   اللہ نے آدم علیہ السلام کو اپنی نیابت عطا فرمائی تو فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ زمین پر فساد پھیلائے گا۔ یہ بتانے کے لئے کہ آدم علیہ السلام کے اندر شر اور فساد کے ساتھ فلاح و خیر کا سمندر بھی موجزن ہے، اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ ہماری تخلیقی صفات بیان کرو۔ جب آدم علیہ السلام نے تخلیقی صفات اور تخلیق میں کام کرنے والے فارمولے ( اسمائے الٰہیہ) بیان کئے تو فرشتے برملا پکار اُٹھے۔

            پاک اور مقدس ہے آپ کی ذات۔ ہم کچھ نہیں جانتے مگر جس قدر علم آپ نے ہمیں بخش دیا ہے۔ بے شک وشبہ آپ ہی کی ذات علیم و حکیم ہے۔            (سورۃ البقرہ)

            تفکر کرنے سے یہ بات سامنے اتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائناتی پروگرام دو طرزوں خیر اور شر پر بنایا ہے ، اس لئے کہ فرشتوں نے جو کچھ کہا اس کی تردید نہیں کی گئی۔ بات کچھ یوں ہے کہ آدم کو جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم منتقل نہیں ہوتا وہ سر تاپا شر اور فساد ہے اور تخلیق کا علم منتقل ہونے کے بعد وہ سراپا خیر ہے۔

            آدم علیہ السلام کے وجود سے پہلے فرشتے موجود تھے جن میں شر اور فساد نہیں ہے۔ پس ایک مخلوق پیدا کی گئی جس میں شر اور خیر دونوں عناصر پورے پورے موجود ہیں تاکہ یہ مخلوق شر کو نظر انداز کر کے خیر کا پرچار کرے۔ خود بھی خیر(صراطِ مستقیم) پر قائم رہے اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی دعوت دے۔ یہی وہ عورت ہے جسے عام کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے اور یہی وہ دعوت ہے جو تبلیغ ہے۔

                        اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت کے ساتھ عمدہ

                        نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجیئے ایسے طریقے پر جو انتہائی بھلا ہو۔

                                                                        (سورۃ النحل)

            قرآن پاک کی اس ایت سے ہمیں تین اصولی ہدایات ملتی ہیں۔

                        ۱۔          شر سے محفوظ رہنے اور خیر کو اپنانے کے لئے دعوتِ حکمت سے دی جائے۔

                        ۲۔        نصیحت ایسے انداز میں نہ کی جائے جس سے دل آزاری ہو۔

 نصیحت کرتے وق چہرہ بشاش ہو۔۔۔۔

                                    آنکھوں میں محبت اور یگانگت کی چمک ہو۔

                                    آپ کا دل خلوس سے معمور ہو۔

                        ۳۔        اگر کوئی بات سمجھاتے وقت بحث ومباحثے کا پہلو نکل آئے تو آواز میں کرختگی نہ آنے دیں۔ تنقید

                                    ضروری ہوجائے تو خیال رکھیں کہ تنقید تعمیری ہو ، دل سوزی اور اخلاص کی آئینہ دار ہو۔

سمجھانے کا انداز ایسا دلنشین ہو کہ مخاطب کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہونے لگے تو فوراً اپنی زبان بند کر لیجیئے کہ اس وقت یہی اس کے لئے خیر ہے۔

            دین کو پھیلانے کے ہمیشہ دو طریقے رائج  رہے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے اور حسنِ اخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے، اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے۔ دوسرا طریقہ ہے کہ تحریر و تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے۔

            موجودہ دور تحریر و تقریر کا دور ہے، فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ زمین کا پھیلاؤ ایک گلوب (Globe)  میں بند ہو گیا۔ آواز کے نکتہ نظر سے امریکہ اور کراچی کا فاصلہ ایک کمرہ سے بھی کم ہو گیا ہے۔ یہی صورتِ حال تحریر کی ہے۔ نشر و اشاعت کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے امریکہ یا دور دراز کسی ملک میں ٹائپ ہونے والی تحریر کراچی اسلام آباد میں اس طرح پڑھی جاتی ہے کہ جیسے کراچی میں لکھی گئی ہو۔

                                    تحریر قاری کے اوپر ایک تاثر چھوڑ دیتی ہے۔ ایسا تاثر جو

                                    ذہن کے اندر فکر و فہم کی تخم ریزی کرتا اور پھر یہی فکر و

                                    فہم ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔

            اپنی تحریر اور تقریر میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کیجیئے۔ الفاظ کی نشست و برخاست ایسی ہو کہ سننے اور پڑھنے والے کے اوپر امید وار تعلق خاطر کی کیفیت طاری ہو جائے۔ خوف کو درمیان میں نہ لایئے کہ خوف پر مبالغہ آمیز زور دینے سے بندہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے اور اسے اپنی اصلاح اور نجات نہ صرف مشکل بلکہ محال نظر آنے لگتی ہے۔ تحریر میں ایسے الفاظ لکھے جن میں خدا سے محبت کرنے کا تصور غالب ہو، خوف کی جگہ ادب و احترام ہو کہ وہ خدا کی رحمت اور بخشش کو اس کے پورے ادب و احترام کے ساتھ قبول کرے۔

            حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

                        بہترین عالم وہ ہے جو لوگوں کو ایسے انداز سے خدا کی طرف دعوت دیتا ہے

                        کہ خدا سے بندے مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی خدا کا ایسا تصور پیش کرتا ہے

                        کہ وہ خدا کی نافرمانی سے بے خوف ہو جائیں۔

            دین کی دعوت اور روحانی علوم کی اشاعت کے لئے تھوڑا کام کیجئے لیکن مسلسل کیجئے۔ لوگوں کو روحانی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی دعوت دیجئے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات، تکالیف اور آزمائشوں کی خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔

                        بہترین عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔