Topics

علاج بالنظر

روز نامہ جنگ ۱۹۸۵ء

            اس حقیقت سے فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی  زندگی میں خوشی، غم، صحت اور بیماری کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے وابستہ ہے۔ کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگہی ہوتا ہے  اور کوئی خیال کربناک۔ ڈر،خوف، شک،حسد ،طمع ، نفرت و حقارت، غرور و تکبر ، خود نمائی، بیماریاں سب خیالات کی پیدا وار ہیں اور اس کے برعکس محبت  ، ایثار، یقین، انکساری ، حزن و ملال  کا نہ ہونا اور صحت و تندرستی بھی خیالات کے تانے بانے میں بُنی ہوئی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ خوشی ، غمی ، صحت اور بیماری تصورات کے فلمی فیتہ پر نقش ہیں۔ تصورات خیالات سے جنم لیتے ہیں۔ اب یہ تالاش کرنا ضروری ہو گیا کہ خیالات کہاں سے اتے ہیں اور ہماری زندگی کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔

            قانون تخلیق کے تحت انسان تین پرت کا بنا ہوا ہے۔ ایک پرت صفاتی ہے اور دوسرا ذاتی اور تیسرا پرت ذات اور صفات میں امتیازی خط کھینچنے والی ایجنسی ہے۔ ذات اور صفات کو الگ کرنے والی ایجنسی کو جسدِ خاکی یا گوشت پوست کا جسم کہا جاتا ہے، ہر پرت کے محسوسات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں،ایک دوسرے سے نمایاں امتیاز رکھتے ہیں۔ ذات کا پرت وہم اور خیال کو بہت قریب  سے دیکھتا ، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ صفات کا پرت وہم اور خیال کو تصور بنا کر جسدِ خاکی یا گوشت پوست کے جسم کو منتقل کر دیتا ہے۔  جسدِ خاکی تصورات کو معنی کا لباس پہنا کر خوشی یا غم ، بیماری اور صحت کے احساست پیدا کر تا ہے۔ قدرت نے مندرجہ بالا ایجنسی کو غیر جانبدار ( نیوٹرل) بنایا ہے۔ اس ایجنسی میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک نقش باطن جس کے اندر بہت لطیف انوار کا ذخیرہ رہتا ہے۔ دوسرا نقش ظاہر ہے جس کے اندر غرض پسندی، ذہنی تعش، احساسِ کمتری اور غیر ذمہ داری جیسے جذبات کا ذخیرہ ہے ۔ تصورات میں اگر پیچیدگی اور بناوٹ ہے تو یہ تصورات الجھنیں ، اضطراب اور پریشانی کا جامہ پہن لیتے ہیں۔

            یہی عالم سفلی، عالم ناسوت اور عالم آب و گل کے محسوسات ہیں۔ عالم سفلی کے محسوسات اور خواہشات اس نقش کو باطن سے دور کر دیتی ہیں۔ جیسے ہی یہ دوری واقع ہوتی ہے اس نقش میں خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ یہ خراشیں اخلاقی امراض کی بنیاد ہیں۔ باطنی نقش کی بیگانگی سے ان میں ایک  متضاد پھوڑا بن جاتا ہے۔ ( یہ پھوڑا ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا)۔ اس پھوڑے کی زڑاند جیسے جیسے بڑھتی ہے صفاتی پرت اس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ صفاتی پرت کی اس دوری سے انسان کے اندر مرگی ، آسیب، دماغی فتور کا عارضہ ، مالیخولیا، خفقان، ہائی بلڈ پریشر ، ذیابیطس ، بھگندر، بواسیر ، کینسر، سل ، دق اور نگاہ سے محرومی جیسے امراض ہو جاتے ہیں۔

            علم کائنات کا قانون انتہائی قابل ِ توجہ ہے کہ جب کسی جگہ نظر کا ٹکراؤ نہ ہو وہ چیز نظر کے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔۔ اور جب نظر کا ٹکراؤ وقوع بذیر ہوتا ہے وہ چیز اپنے خدوخال کے ساتھ مظہر بن جاتی ہے۔

            اللہ کی ہر صفت ایک علم کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان فی الواقع علم الٰہی کے مجموعہ کا نام ہے اور علم الٰہی سب کا سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ  اضطراب، پریشانی اور بیماریوں سے ماورا ہے۔

            اگر  وہ نظر جو پہلی مرتبہ انسان کو ملی ہے اور اس نظر کے بعد اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات منتقل ہوئی ہیں، قانون تخلیق کے تحت استعمال کر لی جائے تو انسان بیماریوں ، افلاس، تنگ دستی اور مضطرب زندگی سے نجات پا سکتا ہے۔

            اس طریقہ علاج میں کسی قسم کی دوا وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نظر اور توجہ سے ہر قسم کے پیچیدہ اور لاعلاج امراض انسانیت کی خدمت کا یہ طریقہ میرے خیال میں بہت زیادہ مؤثر اور حقیقت پسندانہ ہے۔

           


 

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔