Topics

مجذوب کسے کہتے ہیں


مجذوب کِسے کہتے ہیں؟۔۔۔۔۔کیا مجذوب بھی روحانی علوم جانتا ہے؟۔۔۔

            تسنیم محمد ارشد اجمیری                 (کراچی)

 

جواب:   لفظ مجذوب کے استعمال میں اور اس کی معنویت اور تفہیم میں شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ لوگ پاگل اور بدحواس شخص کو مجذوب کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کسی پاگل یا دیوانہ کا نام ہی غیر مکّلف اور مجذوب ہے۔ یہ ایسی شدید غلطی ہے جس کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر لوگ مجذوب سالک اور سالک مجذوب کے بارے بحث و تمحیص کرتے ہیں مگر یہ لوگ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے کہ مجذوب کون  ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔

            اللہ تعالیٰ کی ذات سے انسان جس طرز سے رابطہ قائم کر سکتا ہے وہ پیغمبروں کی طرزِ فکر ہے۔ انبیاء جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ہمیشہ ان کی طرزِفکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالی کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرزِ فکر مستحکم ہو جاتی ہے اور ان کا ذہن ایسے رحجانات پیدا کر لیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی، اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ اس طرزِ فکر کو تصوف کی زبان میں ”قرب فرائض“ کہتے ہیں۔

            اس درج بالا اجمال کو غور سے سمجھنے سے ہم مجذوب کے مقام کے بارے میں سمجھ سکتے ہیں۔

            مجذوب صرف اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ مجذوب کو جذب کی صفت قرب فرائض کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

                                    جذب کسی ایسے شخص کی ذات میں واقعہ ہوتا ہے جو لطائف کی

                                    رنگینی سے جست کر کے توحید ذاتی کی حد میں داخل ہو جائے۔

                                    اسے توحید  صفاتی کی منزلیں  طے کرنے اور توحید صفاتی سے

                                    روشناس ہونے کا موقع نہیں ملتا۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیا جائے کہ

                                    جب کسی کی ذاتی طرزِ فکر کی نفی ہو جاتی ہے یا اس کے ذہن

                                    سے اپنی انا کی ، اپنی مرضی کی چھاپ کسی واقعہ یا حادثاتی طور

                                    پر ہٹ جاتی ہے تو اس کا ذہن یک بیک ازل یا لفظ ”کن“ سے

 پہلے کے عالم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس عالم میں وہ یہ دیکھتا

 ہے کہ کائنات میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہیں ہے۔

 کائنات کی ہر شے، ہر حرکت اور ہر عمل میں اللہ کی ذات

بذات خود موجود ہے۔ ایسے شخص کو ہر سمت میں اللہ ہی

 اللہ نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوار ایسے  شخص

کا پوری طرح احاطہ کر لیتے ہیں چناچہ اس شخص کی اپنی

مرضی، اپنا شعور ، اپنی عقل، اپنی انا پوری طرح معدوم ہو

جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوارات میں اس

قدر کھو جاتا ہے کہ پھر اسے کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔

            دوسرے الفاظ میں اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات میں جذب ہو جاتی ہے ۔ اس ہی ہستی کو مجذوب کہتے ہیں۔ مجذوب 

            اَللہ نُور السَمٰواتِ وَالارض               کی عملی تفسیر ہوتا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔