Topics

توبۃ النصوح۔ توبہ کرتے وقت کیا کیفیت ہونی چاہیئے


میں  جس مسئلے میں آپ سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں وہ روحانی مسئلہ تو نہیں ہے لیکن چونکہ آپ سے عقیدت رکھتا ہوں اس لئے آپ ہی مجھے مطمئن کر سکتے ہیں۔

            پوچھنا یہ ہے کہ جب انسان کوئی بُرا کام یا گناہ کرتا ہے اس کا نفس لوامہ زندہ ہے تو وہ توبہ کرتا ہے تاکہ اس گناہ کی معافی ہو سکے اور اس گناہ کی وجہ سے جو مصیبت اس پر آتی ہے وہ ٹل جائے لیکن ” توبہ“ کے لئے موڈ بنانا پڑتا ہے بلکہ یوں کہیئے کہ بن جاتا ہے۔ میں یوں کہوں گا کہ توبہ ایک طرح کا وعدہ ہے اور وعدہ بھی اللہ تعالی کی ذات سے کیا جاتا ہے اور یہ وعدہ یا توبہ کرتے وقت انسان کی ایک کیفیت ہوتی ہے اور میرے خیال کے مطابق اگر وہ کیفیت نہ ہو تو توبہ قبول نہیں ہوتی۔ یعنی جب انسان کے دل میں یہ ہو کہ توبہ کر لو اللہ معاف کر دے گا اور ساتھ ہی ساتھ دل میں یہ بھی ہو کہ دوبارہ گناہ کر کے توبہ کر لوں گا ۔ وہ عزم جو سچی توبہ کرتے وقت  ہونا چاہیئے اگر نہ ہو تو ایسی توبہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

            شاید آپ اس مسئلے کو زیادہ اہمیت نہ دیں کیونکہ میں توبہ کرنے سے پہلے ہی اتنے سوال کر رہا ہوں جو کہ نہیں کرنے چاہیئں۔ میں سمجھتا ہوں کہ توبہ تو ایسی کیفیت ہے جو اچانک انسان کے دل میں پیدا ہو جا تی اور وہ بے اختیار اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کرتا ہے کہ یااللہ! مجھے معاف کر دے میں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کیفیت مجھ پر طاری نہیں ہوتی جو توبہ کرتے وقت ہونی چاہیئے۔

            دوسری بات یہ ہے کہ میری یادداشت بہت کمزور ہے اس لئے مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ میں نے گناہ کے بعد توبہ کی تھی یا اللہ تعالیٰ سے صرف آئندہ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا یا کوئی قسم کھائی تھی۔ ویسے قوی امکان یہ ہے کہ میں نے توبہ  بھی کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ آئندہ کوئی بد فعل نہیں کروں گا مگر اس کے باوجود دوبارہ گناہ سر زد ہو جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب! میں پانچوں وقت کا نمازی ہوں اور ہمیشہ پاک رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔

            لیکن بُرے خیالات کی یلغار کی وجہ سے اکثر ذہن فعل بد کی طرف  مائل رہتا ہے۔ اب تو سوچنے لگا ہوں کہ ایسی نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں دو دفعہ اعتکاف میں بھی اسی وجہ سے بیٹھ چکا ہوں کہ شاید میرا ذہن کنٹرول میں آجائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ میں نے اچھے اچھے ناصح حضرات کو دیکھا کہ دوسروں کو تو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ جن قوموں کے قول و فعل میں تضاد ہو تو وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور اس طرح میرے اندر کے انسان میں لرزہ پیدا ہو جاتا ہے مگر ان ہی ناصح حضرات کو عملی زندگی میں دیکھتا ہوں تو ان کے اپنے قول و فعل میں تضاد نمایاں پایا جاتا ہے۔

            خواجہ صاحب! میں کیا کہنا چاہتا ہوں ، کس طرح کہنا چاہتا ہوں، مدعا کو درست الفاظ میں تحریر نہیں کر سکتا۔ آپ یقیناً میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے کہ ایک نوجوان نمازی کن کیفیات کا شکار ہے۔ للہ تفصیل کے ساتھ جواب تحریر کر کے مجھے راستہ دکھائیں اور مطمئن کریں ورنہ نمازیں اور گناہ ساتھ ساتھ رہیں گے اور آئندہ کسی سے کچھ نہ کہہ سکوں گا۔

            عرفان احمد                                 (کراچی)

 

            میں نے آپ کا تفصیلی خط من وعن اس لئے شائع کر دیا ہے کہ جس سر بستہ مسئلے کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ نوجوان نسل کا بالخصوص اور قوموں کے افراد کا بالعموم معاملہ ہے۔ اس الجھاؤ کے سلجھاؤ کے لئے دو باتیں  سمجھنا بہت ضروری  ہیں۔ انسان اپنے بشری تقاضوں کے سبب گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کا مرتکب رہتا ہے لیکن جب اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفت ستار العیوب اور غفار الذنوب کی جانب مُڑ جاتا ہے تو وہ خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کی صدق دل کے ساتھ رو رو کر گڑگڑا کر اس طرح معافی مانگ لیتا ہے کہ اسے قرار  آجاتا ہے تو گویا اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

            اس طرح قرار کے بعد دوبارہ اس کے ذہن میں وہ گناہ کرنے کا خیال قطعی نہیں اُبھرتا جس کے لئے معافی طلب کی گئی ہو۔ ایسی توبہ کو توبہ النصوح کہا جاتا ہے مگر ایسی توبہ جو خلوص نیت کے ساتھ نہ کی گئی ہو انسان دوبارہ تکرار کرنے لگتا ہے ۔ یہیں سے مسئلہ بگرنے لگتا ہے۔

ایسا گناہ جو بار بار دہرایا جائے گناہ کے زمرے سے نکل کر شیطنت کے

زمرے میں  آ جاتا ہے۔ شیطنت کے زمرے میں کئے گئے گناہ، نہ

صرف گناہ کبیرہ ہوتے ہیں بلکہ ناقابلِ معافی ہوتے ہیں۔ جزا اور سزا

کا قانون بھی ایسے ہی گناہوں کی نوعیت پر قائم ہے۔   

            ایسے گناہ جو توبہ النصوح کے بعد دہرائے  نہ جائیں، ان شاء اللہ قابلِ مواخذہ نہ ہوں گے مگر وہ گناہ جو شیطنت کے زمرے میں آتے ہیں یعنی بار بار دہرائے جاتے رہیں وہ قابلِ مواخذہ ہیں۔ اس فرق کے ساتھ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور اس دنیا میں کئے گئے چھوٹے بڑے  تمام گناہوں کی تلافی بالمعفی کر لینی چاہیئے تاکہ عالم اعراف میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

                                    ۲۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ

                                    بیشک! نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکتی ہے۔       (سورۃ العنکبوت)

            پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ بُرائیاں اور گناہ بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اس امر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ صلوٰۃ (نماز) کا تعلق  قائمیت سے ہے جبکہ ہم   صلوٰۃ قائم نہیں کرتے بلکہ پڑھتے ہیں۔ پڑھنا  بمعنی کسی عمل کو عادتاً دہراتے رہنا جبکہ قائم کرنا بمعنی رابطہ پیدا کرنا  ہوتا ہے یعنی جب ہم صلوٰۃ (نماز) قائم کریں تو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق اور ایسا ربط وائم ہو جائے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی تیسری چیز دخیل اور حائل نہ ہو۔ ایسی نمازیں صلوٰۃ کی قائمیت میں آتی ہیں اور یقیناً بُرائیوں سے روکتی ہیں۔

            آپ کے لئے میرا مشورہ ہے کہ عشا کی نماز کے بعد ایک  سو ایک بار استغفار پڑھ کر  بند آنکھوں سے ” مرتبہ احسان“ کا مراقبہ کریں یعنی یہ تصور کریں کہ آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں یا یہ کہ خدا  آپ کو دیکھ رہا ہے۔ پندرہ منٹ مرتبہ احسان کے اس مرابہ سے بہت کم مدت میں آپ دگرگوں صورتِ حال سے نجات پا لیں گے۔


 

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔