Topics

روح کا اصل مقام کیا ہے


میں نے نفسیات کی کتاب میں ایک ماہر نفسیات فلاطیوس کا ”روح“ کے متعلق ایک مضمون پڑھا تھا۔ جس میں اس نے لکھا ہے کہ

                                      ”روح ، عقل اور مادہ خدا کی ذات سے بتدریج ظہور میں آیا ہے“

            وہ خدا کی ذات کو سب سے ارفع و اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ عقل کو دوسرا درجہ اور روح کو تیسرا درجہ دیتا ہے۔ اس نے روح اور انسانی روح میں فرق بیان کیا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی روح، روح  سے نکلتی ہے۔ اس کےخیال میں   جب انسانی روح مادے کی طرف مائل ہوتی ہے تو وہ اپنے اصل مقام سے نیچے گر جاتی ہے۔

            ازراہ کرم وضاحت فرمائیں کہ روح کا اصل مقام کیا ہے۔۔۔۔ اور اس کا کیا مطلب ہے کہ روح ، روح سے نکلتی ہے۔۔۔ کیا واقعی انسانی روح اور روح دو مختلف چیزیں ہیں۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ روح ، عقل اور مادہ کی یہ درجہ بندی درست ہے یا نہیں؟

            قمر سلطانہ                            (شاہین آباد ، گوجرانوالہ)

 

            زندگی کا تعارف خدوخال اور نقش و نگار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ زندگی کا ایک حصہ خدوخال اور نقش و نگار پر مشتمل ہے اور حصہ وہ بساط ہے جس پر نقش و نگار چھپ (Print)         رہے ہیں۔ یہ دونوں رخ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ جب ہم کسی بھی شے کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے  ذہن میں دو رخ آتے ہیں۔ ایک رخ روح اور دوسرا جسم۔ ایک رخ آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا رخ آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔

            وہ رخ جو آنکھوں کے سامنے ہے اور جس میں ہم نقش و نگار اور خدو خال کا بڑھنا گھٹنا دیکھتے ہیں سب کا سب مکان (Space)  ہے اور جس خلاء میں یہ خدوخال گھٹ رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور جو آنکھوں سے اوجھل ہے وہ زمان (Time) ہے۔

             جب ہم زمان کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساری کائنات زمانیت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم رشتہ ہے اور جب ہم مکانیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو کائنات نوعی اعتبار سے اور انفرادی اعتبار سے الگ الگ ہے۔ ہم بھیڑ ، بکری، بندر، چوہا، کتاب، ہاتھی، لوہا، درخت، پہاڑ اور انسان کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں تو زندگی اور انرجی سب میں مشترک ہے۔ جب ہم نوعی اعتبار سے کائنات کا تذکرہ کرتے ہیں یا Space     کی حدود کا تذکرہ کرتے ہیں تو انسان ، ہاتھی، درخت ، پتھر سب الگ الگ خدوخال میں نظر آتے ہیں۔

            کائنات میں یا افراد کائنات میں تعارف کے لئے جو روشنی ذریعہ بن رہی ہے وہ ازل سے ایک ہی طرز پر قائم ہے۔ کائنات کے تمام افراد کی روح ایک ہے لیکن جسمانی خدوخال الگ الگ ہیں جہاں روح ایک ہے وہاں ہر شے میں اشتراک ہے مثلاً بھوک لگنا، بکری کو  بھی بھوک لگتی ہے، بھوک انسان کو بھی لگتی ہے ، کبوتر کو بھی لگتی ہے، بھوک کا لگنا زمانیت ہے لیکن انفرادی طور پر جب خدوخال مکانیت بنتے ہیں تو غذا الگ الگ ہو جاتی ہے۔ بھوک لگنا زمانیت پر قائم ہے اور بھوک کو مختلف چیزوں سے رفع کرنا اسپیس یا مکانیت ہے ۔ اس بات کو پھر سمجھیئے۔ جب کائنات میں خدو خال ظاہر ہوتے ہیں تو زمان پردے میں چلا جاتا ہے اور جب کائنات کے اندر موجودات کی تصویر یں خدوخال سے ماورا ہو جاتی ہیں تو مکان، زمان میں پیوست ہو جاتا ہے۔ کائنات زمانیت میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے نزولی حرکت کہا جاتا ہے اور جب مکانیت پس منظر میں چلی جاتی ہے تو اسے صعودی حرکت کہا  جاتا ہے۔ نزول و صعود کا پورا سلسلہ لوح محفوظ پر نقش ہے۔

            زندگی  کی وہ حرکت جس میں گوشت پوست کی حرکت شامل ہے، نزولی کیفیات پر مشتمل ہے اور وہ حرکت جو جسمانی خدوخال اور گوشت پوست سے مبرا ہو کر متحرک ہے، صعودی حرکت یا صعودی زندگی ہے۔

            قصہ مختصر یہ کہ تمام مخلوق ظہور میں آنے سے پہلے اللہ کے ارادے میں جس طرح محفوظ تھی اب اسی طرح محفوظ ہے جہاں یہ محفوظ ہے اس کو ” لوح محفوظ ؛ “ کہا جاتا ہے۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب دراصل لوحِ محفوظ کا عکس ہے یعنی لوحِ محفوظ اصل ہے اور اس کا اصل عکسِ ساری کائنات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نوع کی شکل و صورت ہمیشہ  سے یکساں ہے ۔ اربوں کھربوں سال گزرنے کے بعد بکری بکری ہے، بندر بندر ہے، شیر شیر ہے، انسان انسان ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ زمانے کے انقلاب کے ساتھ یا حالات کی تبدیلی کی بناء پر انسان بکری بن جائے اور بکری انسان کا روپ دھار لے، بکری ہمیشہ بکری رہتی ہے، انسان ہمیشہ انسان رہتا ہے۔ بکری  دراصل لوح محفوظ میں موجود بکری کا عکس ہے۔ اسی طرح جنات ، انسان ، فرشتے سب چیزیں  اپنی اپنی  اصلوں پر قائم ہیں اور ہر نوع اپنی اصل کا عکس ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔