Topics

شادی کے لئے رشتوں کے معیار کی حکمت عملی


آپ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ ہم دوستوں کے خط کا تفصیل سے جواب دے کر   ہمیں ذہنی کوفت سے نجات دلائیں۔ مسئلہ وہی ہے جو آج کل ہر گھر کا ہے یعنی لڑکیوں کی شادی۔ آپ سے جب بھی کوئی والدین اپنی بیٹی کی عمر کی زیادتی کا بتا کر شادی کے وظیفے کی درخواست کرتا ہے تو آپ ہر ایک کو یہی جواب دیتے ہیں ۔ ہم صرف آپ سے یہ سوال کرتے ہیں  کہ متوسط یا غریب گھرانے کے والدین کو کیا یہ حق نہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کے لئے اچھے رشتوں کا انتظار کریں۔ کیا ان والدین کی بیٹیوں کی قسمت میں کسی اچھے عہدے والے ، فوجی یا ڈاکٹر کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔

            ساری دنیا کہتی ہے کہ جوڑے آسمان پر بن جاتے ہیں تو کیا اللہ میاں نے بھی انسانوں کی طرح ان کے آپس کے معیار کے مطابق جوڑے بنائے ہیں کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو امیر گھرانے کی لڑکیاں ہوتی ہیں ان کی  تو بڑے آرام سے وقت مقررہ پر اچھے عہدوں پر فائز لوگوں سے شادی ہو جاتی ہے لیکن غریب یا متوسط طبقے کی لڑکیوں کیا یا تو شادی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو ان کے معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ ہم یہ نہیں کہتے ہماری شادیاں امیر لوگوں میں ہوں ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جب ہم قبول صورت بھی ہیں اور تعلیم یافتہ بھی پھر ہم کو اپنے جوڑ کے مطابق رشتہ کیوں نہیں ملتا۔

            خواجہ صاحب! آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ جب رشتے آئے تو اس وقت شادی نہیں کی اور والدین نے دولت کو معیار بنایا۔ یقین کریں کہ ہمارے ماں باپ کا معیار دولت نہیں تھا بلکہ ایک نیک و شریف انسان تھا۔ جب ایسا تھا تو ہم  توہم پرست، جاہل یا برے رشتوں کو کیسے قبول کر لیتے۔۔۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے بعد خدا کے لئے کوئی ایسا عمل بتا دیں جس سے ہم سہلیوں کی شادیاں خوب اچھے ، شریف اور اچھے فوجی افسر سے ہو جائیں اور ہم لوگوں کے طعنوں اور بے مزہ زندگی سے نجات پا لیں۔

            ہم دولت نہیں چاہتے صرف عزت اور محبت چاہتے ہیں اور یقیناً افسر کی معاشرے میں سب سے زیادہ عزت ہے۔ جواب ضرور دیں ورنہ ہم پاگل ہو جائیں گے۔

جواب:   خدا نے صاف صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ خدا کے نزدیک وہ لوگ پسندیدہ ہیں جو پرہیز گار ہیں۔ خدا نے دولت کے معیار کو پسند نہیں کیا۔ قرآن پاک میں ہے۔

                                    جو لوگ سونا چاندی یعنی دولت جمع کر کے رکھتے ہیں اور

                                    اللہ کے لئے خرچ نہیں کر ڈالتے ان کے لئے عذاب کی

                                    بشارت ہے۔         (سورۃ التوبہ)

            لیکن خدا نے چونکہ نوع انسان کو عمل کرنے کے اختیارات بھی دے دیئے ہیں اس لئے وہ لوگوں کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا۔۔۔ موجودہ دور میں یہ بڑی آزمائش ہو گئی ہے کہ ہر شخص دولت ، شہرت اور خود نمائی میں مبتلا ہو گیا ہے۔

            میرے سامنے  ایک واقعہ ہے، ایک مولوی صاحب جن کے چہرہ پر بڑی داڑھی تھی۔ تعلیم یافتہ اور خوشحال تھے۔ اچھا کاروبار تھا مگر جہاں بھی ان کا رشتہ گیا، انکار ہو گیا۔ داڑھی کٹوا دیں تو رشتہ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

            سید گھرانے میں ایک بچی کی شادی ایک بڑی پوسٹ پر فائز صاحبزادے سے ہو گئی۔ جب دو بچے ہو گئے تو عقدہ کھلا کہ شوہر مہترانی کے فرزند ارجمند ہیں۔

            حید رآباد کی ایک شادی کا حال سن لیجیئے، لڑکے اور لڑکی کا رشتہ طے ہو گیا۔ دونوں بڑے مالدار تھے۔ شادی کے دن ایک ڈاکٹر بھی مدعو کئے گئے۔ لڑکے اور لڑکی کے والدین نے انھیں پہچان لیا۔ لڑکے کے باپ کو یہ فکر ہوئی کہ اگر ڈاکٹر نے ذات برادری کا راز کھول دیا، بارات واپس ہو جائے گی۔

بیٹی کے باپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ خاندان کا پردہ فاش ہو گیا تو بارات اُٹھ جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب لڑکے اور لڑکی کے والدین کو کمرہ میں لے گئے اور سمجھایا کہ میں تم دونوں کا ہمدرد ہوں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سید زادی کا رشتہ خاندان سے آیا تھا، لڑکا گریجویٹ تھا۔ برسرروزگار تھا مگر آمدنی اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی ان صاحب کی تھی جنہوں نے خود خو چھپانے کے لئے کہہ دیا تھا کہ میرا کوئی نہیں ہے۔

            مرشد کریم قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے ہندوستان کا ایک واقعہ سنایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی بیٹی کا رشتہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے بیٹے  سے آیا۔ انہوں نے جواب دے دیا کہ لڑکا کمشنر نہ ہو تو میرے عہدہ کے برابر تو ہو۔ پھر تحصیلدار سے رشتہ آیا ، کہا جب میں نے  ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سے نہیں کیا تو تحصیلدار سے کیسے ہو سکتا ہے؟ نتیجہ میں انہیں اپنی بیٹی کی شادی ایک سپاہی سے کرنا پڑی کیونکہ عمر بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ اب آپ خود بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کو کس طرح مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔

            ایک زمانہ تھا کہ لڑکے  پڑھے لکھے ہوتے تھے ، لڑکیاں کم تعلیم یافتہ ہوتی تھیں، شادی ہو جاتی تھی۔ اب اگر لڑکی ( ایم ایس سی ) ہے تو وہ بی۔ اے پاس لڑکے سے شادی پر بمشکل رضا مند ہوتی ہے۔ دلہن کا جوڑا ہزاروں روپے کا بنتا ہے اور دو تین دفعہ سے زیادہ نہیں پہنا جاتا۔ ہر ماں باپ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رقم کا ضیاع ہے مگر جوڑا سِلتا ضرور ہے۔میرے جاننے والوں میں ایک صاحب نے اپنا ذاتی مکان فروخت کر کے بیٹی کی شادی کی اور خود کرایہ کے مکان میں رہ رہے ہیں۔

            ایسی تمام بے بنیاد باتوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں اللہ تعالیٰ نہیں۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضور پاک ﷺ کی امت ہیں مگر کو نسا مسلمان ایسا ہے جس نے حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی طرح شادی ہو۔

            کون نہیں جانتا باعث تخلیق کائنات ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کو جہیز میں کیا کچھ دیا تھا۔ ہم اگر اپنی اصلاح کر لیں اور نبی مکرم ﷺ کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کریںہماری ساری پریشانیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔