Topics

عدم تحفظ کے احساس سے بچنے کا عمل


دور ِ حاضر میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ مصروف ِ عمل ہیں۔ انسانی فلاح و بہبود کے ادارے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں لیکن عدم تحفظ کا احساس اس طرح  چھا گیا ہے کہ انسان، انسان کے سائے سے بھی ڈرنے لگا ہے۔ آج کل ایسا لگتا ہے کہ موت انسان کے تعاقب  میں ہے اور بے بس انسان اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر بھی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ کیا خوف ناک عمل ہے کہ آدمی درندہ بن گیا ہے جبکہ کوئی درندہ بھی اپنی نوع کے درندہ کو قتل نہیں کرتا۔ سکون ختم ہو گیا ہے۔ ڈر  اور خوف سے اعصابی نظام درہمبرہم ہو گیا ۔ بچے رات کو چونک چونک جاتے ہیں۔ بڑے دل پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا اس صورتحال سے بچنے کا کوئی عمل یا طریقہ روحانیت میں موجود ہے۔

 

جواب :   قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم کے افراد میں سے محبت، خلوص، ایثار اور اتحاد ختم ہو جاتا ہے تو قومیں اللہ کے عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور جب کوئی قوم خود اپنے اندر تبدیلی نہیں لانا چاہتی تو اللہ کے قانون کے تحت اللہ کی مدد سے محروم ہو جاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے قانون سے ردگردانی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

                        اور اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں

                        تفرقہ نہ ڈالو۔        ( سورۃ آل عمران)

            اللہ  تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے

                        اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ

                        نہیں کرتے ان کے لئے عذاب الہیہ کی بشارت ہے۔

                                                                        (سورۃ التوبہ)

            ہم من حیث القوم ، ساری دنیا کے مسلمان عملاً ان دونوں آیات پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر یہ بھی نہیں کرتے کہ متحد ہو کر توبہ استغفار کریں۔یہ کون نہیں جانتا کہ مسلمان جب قرآن کی طرف رجوع نہیں  کرتا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا اور دولت پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے، زمین پر اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک، ان کے عالی شان محلات آج کھنڈرات کی شکل میں زمین پر موجو ہیں۔

                                    کیا یہ لوگ زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھتے کہ پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا۔

                                    وہ لوگ قوت اور تہذیب و تمدن میں ان سے برتر تھے لیکن اللہ نے

                                    انہیں  ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا اور انہیں کوئی نہیں بچا  سکا۔

                                                                                    (سورۃ الانعام)

            کیسی عجیب بات ہے کہ بندہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ، اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اور اپنی پوری دنائی کے ساتھ فتنوں سے قریب ہو رہا ہے۔ بھائی چارہ، خلوص اور ایثار کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

                        ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔        (سورۃ المائدہ)

            ہمیں چاہیئے کہ ہم صراط مستقیم پر قائم ہو کر ٹھنڈے دل سے راہیں متعین کریں۔ اجتماعی طور پر اللہ کی طرف آئیں۔ مساجد  اور گھروں میں درود شریف اور ایت کریمہ کا ختم کریں۔ دعائے استغفار کریں۔

                        ٭         ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔

                        ٭        ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق ہیں۔

                        ٭        جو ہم اپنے لئے چاہیں وہی اپنے بھائی کے لئے بھی چاہیں۔

            فجر اور عشاء کی نماز کے بعد انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کثرت سے

یَااللہ یَارَحْمٰن ُ یَا رَحْیِمُ

            کا ورد کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور امن و امان ہونے کی دعا کریں۔

            قول و فعل میں اپنی ذات کو اولیت دینے اور مخلوق کے حقوق کے حقوق کی باسداری نہ کرنے سے بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس وقت بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی اس نیک عمل کی طرف متوجہ کریں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔