Topics

کائنات کی حقیقت (میکانزم) کیاہے۔


ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرے اور بندہ صرف روح کا عرفان حاصل کر کے ہی اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو بہترین صناعی سے بنایا گیا اور یہ اسفل سالفین میں گر گیا یعنی آدم کے دو روپ ہیں۔ ایک طرف یہ کائنات پر حکمرانی کرنے والا آدم ہے تو دوسری طرف اسفل میں گرا ہوا حواس خمسہ کا پابند گوشت پوست کا پتلا آدم ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ کائنات کی حقیقت (میکانزم) کیا ہے اور آدم زاد کس حیثیت سے کائنات کا ممتاز فرد ہے۔

 

جواب:   کائنات کیا ہے۔۔۔۔ کائنات ایک نقطہ ہے، نقطہ کیا ہے۔۔۔ نقطہ نور ہے، نور کیا ہے۔۔۔۔ نور کا تنزل روشنی ہے، ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی گوشت پوست کے جسم میں اپنا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے پر قائم عمارت گوشت  اور پٹھوں پر کھڑی ہے، کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن کی طرح ہے۔

            وریدوں ، شریانوں ، اعصاب، ہڈیوں گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی کیا ہے۔۔۔ اس کی حیثیت حواس کے علاوہ کچھ نہیں۔ حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک روحانی انسان کے اندر ہزاروں حواس کام کرتے ہیں۔

            آدم زاد کے دو روپ ہیں، ایک ظاہر روپ، دوسرا باطن روپ۔ باطن روپ میں روح کا عمل دخل ہے۔ روح کائنات (زمین و آسمان ) کے ہر ذرے میں مستقل گشت کرتی رہتی ہے۔ کائنات میں جتنی تخلیقات اور عناصر ہیں، جتنے ذرات ہیں اور ہر ذرہ (خلیہ) روح کی تحریکات پر زندہ متحرک اور قائم ہے۔

            روح جب تک ذرات سے اپنا رشتہ جوڑے رہتی ہے ذرات میں زندگی اور حرکت رہتی ہے اور جب روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو حرکت معدوم ہو جاتی ہے۔ روح کے لاکھوں ، کروڑوں روپ ہیں اور ہر روپ ایک بہروپ ہے۔ آدم زاد ایک طرف روح ہے تو دوسری طرف روح کا بہروپ ہے۔ روپ بہروپ کی یہ کہانی ازل  میں شروع ہوئی اور ابد تک قائم رہے گی۔ یہ کہانی دراصل ایک ڈرامہ ہے۔ مختلف روپ (افراد) آتے ہیں اور اسٹیج پر اپنے کردار (بہروپ) کا مظہارہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ روپ بہروپ کا یہ مظاہرہ ماضی، حال اور مستقبل ہے۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی در اصل بچپن، جوانی اور بڑھاپے کا بہروپ ہوں۔

کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا

بھان                       مٹی                              نے                           کنبہ                        جوڑا

            روحانیت میں غیب کے مشاہدے کی ایک نظر ” سیر“ ہے۔ سیر کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ کائنات کا سارا یکجائی پروگرام لوح محفوظ پر منقوش ہے اور لوح محفوظ کا منقوش پروگرام خالق کائنات کی تجلی سے بے شمار زمینوں (اسکرین) پر ڈسپلے ہو رہا ہے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار انواع اور انسانی شماریات سے زیادہ ان انواع کے افراد کائنات کا کل پرزے ہیں۔

            یہ کائناتی مشین ایک دائرے (سرکل) میں چل رہی ہے۔ جزو لا تجزی وجود سے اس کی حرکت شروع ہوتی ہے اور ماورا ء ہستی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ آسمان، زمین، درخت، پہاڑ، چرندے پرندے، حشرات الارض، فرشتے ، جنات اور انسان سب اس عظیم الشان نظام کے اجزاء ہیں جن کے اشتراک سے حرکت کامنظم سلسلہ جاری و ساری ہے۔ البتہ انسان ایسا واحد فرد ہے جو نظام کائنات کے میکانزم سے واقف ہے ، باقی مخلوق اس سے واقفیت نہیں رکھتی۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔