Topics

عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے کی تشریح


            مرزا اسد اللہ غالب نے کہا

                 ہستی کے مت فریب مایں آجائیو اسد

                 عالم                                            تمام                                          حلقۂ                                             دام                                        خیال                                          ہے

            غالب کے اس شعر پر غور کیا جائے تو دنیا  کی بے ثباتی سامنے آجاتی ہے۔ آپ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ساری دنیا عارضی اور فکشن ہے۔ جو آتا ہے اسے جانا ضرور ہے اور جانا بھی اس طرح کہ سکندر کی طرح خالی ہاتھ چلا جانا ہے۔ درخواست ہے کہ مرزا غالب کے اس شعر کی روحانی تشریح کیجیئے۔

            حضرت شاہ                         (نواب شاہ)

 

            زندگی جس نظام پر چل رہی ہے اس نظام پر جب غور کیا جاتا ہے تو یہ بات تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ ساری زندگی خیالات کے اوپر قائم ہے۔ اگر خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو زندگی کے تمام تقاضے ، زندگی کے تمام حواس اور زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ زمین کی کوئی حرکت ، کوئی کام، کوئی تقاضا ایسا نہیں ہے جس کو حرکت ، تقاضے یا خیالات سے باہر کر دیا جائے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے اس کام کے متعلق ذہن پر خیال وارد ہو اور خیال کے اندر گہرائی پیدا ہو۔ جب تک خیال کے اندر گہرائی پیدا نہیں ہوتی، خیال تصوراتی شکل و صورت میں منتقل نہیں ہوتا اور جب تک تصورات میں گہرائی واقع نہیں ہوتی کوئی چیز اپنا مظاہرہ نہیں کرتی۔ خیال سے پہلے ایک اور لطیف صورت ایک ایسی کیفیت  ہے جس کیفیت کا دباؤ ذہن پر پڑتا ہے اور ایسی خیالی کیفیت کی بنیاد پر آدمی خیال میں معانی پہناتا ہے۔ خیال اس لطیف کیفیت کو عرف عام میں وہم کہا جاتا ہے۔ خیال کی اس لطیف کیفیت میں جب گہرائی آجاتی ہے تو ” واہمہ“ خیال بن جاتا ہے۔

            اس کی ایکویشن    (Equation)   یہ بنی۔

 


            یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ خیال کے بعد زندگی کے سارے تقاضے بنتے ہیں یہ بات ابھی غورِ طلب ہے کہ خیال آتا کہا ںسے ہے؟

            ایک کتاب المبین ہے، تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔ کتاب المبین ، تجلیات اور مشیت کا خزانہ ہے۔ لوح محفوظ پر کتا المبین سے نقوش جب نزول کرتے ہیں تو روشنی کی لہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان لہروں کو ہم لکیریں کہیں گے ، ایسی لکیریں جو آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ ذہن سے لکیروں کا ٹکرانا واہمہ ہے۔ عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے ان لکیروں کو نسمہ کا نام  دیا ہے۔

            اگر لوح محفوظ سے یہ لکیریں (Rays)      نزول کر کے ذہن انسانی پر وارد نہ ہوں تو انسان واہمے اور خیال سے واقف نہیں ہوگا اور جب تک واہمہ اور خیال سے واقفیت نہیں ہوگی کوئی ذی روح زندگی کے تقاضوں سے واقف نہیں ہوگا۔

            ہم رات دن یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے۔ کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہماپنی زندگی سے وابستہ خیال کرتے ہیں اور بے شمار خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم اہمیت نہیں دیتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان خیالات سے بالکل لاعلمی اختیار کر کے گزار جاتے ہیں۔

                           لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی خیال ذہن پر وارد

                           ہوتا ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خیال کا تعلق

                           کائنات کے کسی نہ کسی شعبے سے ضرور ہے۔

            خیال کا آنا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ خیال کہیں سے ایا اور یہ خیال زہن انسانی پر ٹکرایا تو ذہن میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایسی حرکت کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے لیکن ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ذہن کے پردوں میں حرکت واقع ہوئی ہے۔ چونکہ ہم اس حرکت کو محسوس نہیں کرتے یا حرکت میں معانی نہیں پہنا سکتے یا حرکت کا اپنہ ذات سے یا کائنات سے رشتہ نہیں جوڑ سکتے اس لئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس حرکت کا تعلق کائنات کے ان  تاروں یا لہروں سے ہے یا کائنات میں کام کرنے والی ان لکیروں سے ہے۔ جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب و تدوین کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

            ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کرہ طولانی گردش اور محوری میں خلا میں ہوا اور آکسیجن کے دوش پر گھوم رہا ہے۔ ہوا چلتی  رہتی ہے ہوا کی تیزی ،کمی، خنکی، گرمی سے ہم متعارف ہیں لیکن ایک وقت ایسا اتا ہے ہوا معمول سے ہٹ کر تیز جھونکوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔

            یہ عمل یعنی تیز جھونکوں میں منتقل ہونا چونکہ روٹین کی حرکت کے خلاف ہے لازماً یہ سوچنا پڑے گا کہ جس نظام میں ہوا بنتی ہے یا جس نظام سےہوا چل کر زمین پر پھیلتی ہے اس نظام میں  تغیر واقع ہوا ہے۔اسی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی حرکت واقع ہوتی ہے یا  کوئی خیال وارد ہوتا ہے تو اس کے معانی یہ ہوئے کہانسان کے لاشعور میں کہیںنہ کہیں حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس حرکت کا کس نظام سے تعلق ہے یہ انسان  کی خود اپنی تلاش پر منحصر ہے ۔ جیسے جیسے کوئی آدمی  گہرائی میں تفکر کرنے کے بعد اپنے لاشعور سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے، اسی مناسبت سے اس کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔

                                    قانون:  ذہن کی دوسطحیں ہیں ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی

                                    حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے

                                    محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔

            تخلیق کائنات کے فارمولوں کے مطابق یہ ساری کائنات نور اور روشنی سے مرکب ہے۔ کائنات کا ایک رُخ نور ہے اور کائنات کا دوسرا رُخ روشنی ہے۔ نور کی دنیا لاشعوری اور ماورائی دنیا ہے اور روشنی کی دنیا مظاہراتی اور مادی دنیا ہے۔ مادی دنیا کا ہر چھوٹے سے چھوٹا ذرہ یا خلیہ (Cell)        نور کے غلاف میں بند ہے۔ اسی قانون کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

                                                اللّٰہ نُور السَمٰوَاتِ وَ الاَرضْ۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔