Topics
نظریۂ رنگ و نور کی تھیوری یہ ہے کہ زندگی کی بنیاد روشنیوں
پر قائم ہے۔ مادی جسم ان روشنیوں کے تنزل سے وجود میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے
لفظ ” نسمہ“ استعمال کیا ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ نسمہ کی ماہیت اور اس کے اعمال پر
تفصیل سے روشنی ڈالئے۔
ڈاکٹر
ناہید جاوید۔MBBS
جواب: استاد محترم ابدال حق حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے۔
کائنات
کی ساخت میں بساط اول وہ روشنی ہے جس کو قرآن پاک میں ماہ (پانی) کے نام سے یاد
کیا ہے۔ موجودہ دور کی سائنس میں اس گیسوں کے نام تعبیر کیا جاتا ہے ۔نسمہ کا انہی
صد ہا گیسوں کے اجتماع سے اولاً جو مرکب بنا ہے۔ اس کو پارہ یا پارہ کی مختلف
شکلیں بطور مظہر پیش کرتی ہیں۔ ان ہی مرکبات کی بہت سی ترکیبوں سے مادی اجسام کی
ساخت عمل میں آتی ہیں اور ان ہی اجسام کو موالید ثلاثہ یعنی حیوانات ، نباتات اور
جمادات کہتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام
نسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسمہ، حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کے مجمعے کا نام ہے جو
وجود کی ابتدا کرتی ہیں۔
حرکت۔۔۔۔۔
اس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو خلا میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ نہ تو ایک
دوسرے سے فاصلہ پر ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں، یہی لکریں مادی جسم میں آپ
کا واسطہ ہیں۔ ان لکیروں کو صرف روح کی آنکھ دیکھ سکتی ہے، کوئی بھی مادی خورد بین
اس کو کسی شکل و صورت میں نہیں دیکھ سکتی البتہ لکیروں کے اثرات کو مادیت یا مظہر
کی صورت میں پا سکتی ہے۔
جب اسکولوں میں لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف پیپر کہتے ہیں، ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ پر چھوٹ چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر، اتنی تعداد سے ناک ، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی پیمائش سے وہ مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں ۔ جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب ، تقسیم سے نباتا، جمادات اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے۔ تخلیقی قانون کی رو سے دراصل یہ لکیریں یا بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں،ن کا جتنا اجتماع ہوتا جائے گا اتنی ہی اور اس ہی طرز کی ٹھوس حسیات ترتیب پاتی جائیں گی۔ ان ہی کی اجتماعیت سے رنگ اور کشش کی طرزیں قیام پاتی ہیں اور ان ہی لکیروں کی حرکات اور گردشیں وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت، مکانیت بناتی ہے اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش، زمانیت کو تخلیق کرتی ہے۔
تخلیقی
قانون میں نسمہ کی وہ شباہت جس کو مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تمثل کہلاتی ہےاور
نسمہ کی وہ شکل میں بھی البعاد (Dimensions) ہوتے ہیں اور روحانی آنکھ ان ابعاد کے
طول و عرض کو مشاہدہ ہی نہیں بلکہ ان کی مکانیت کو محسوس بھی کرتی ہے۔ ماہرین
روحانیت اسی تمثل کو ہیولیٰ کہتے ہیں۔ دراصل یہ محسوسات کا ڈھانچہ ہے جس میں وہ تمام اجزائے ترتیبی موجودہ ہوتے ہیں جن کا ایک
قدم آگے بڑھنے کے بعد جسمانی آنکھ باقاعدہ دیکھتی اور جسمانی لامسہ باقاعدہ احساس
کرتا ہے۔
کسی چیز
کی موجودگی پہلے ایک تمثل یا ہیولیٰ کی شکل و صورت میں ہوتی ہے اس کو نسمہ مفرد
کہتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں یہ نسمہ مفرد جب نسمہ مرکب کی شکل اختیار کر
کے مادی جسم بنتا ہے تو حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہو جاتا ہے اور انسان
مکانیت میں خود کو قید اور بند محسوس کرتا ہے اور جب نسمہ مرکب کی ہیئت نسمہ مفرد
میں تبدیل ہوتی ہے تو انسان کے اوپر زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ مادی جسم جن
روشنیوں پر قائم اور متحرک ہے اس کو روحانیت میں نسمہ اور سائنسی زبان میں Aura کہا جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔