Topics

خاندانی بیماری


کئی برس پہلے ہماری نانی اماں اور نانا ابا افریقہ میں مقیم تھے۔ اس وقت نانی اماں کی عمر پندرہ برس تھی، نانا ابا ڈاکٹر تھے اور جنگل میں جیل ہسپتال میں پوسٹنگ اور رہائش تھی۔ ایک دن نانی اماں کمرے سے نکل کر صحن میں آرہی تھیں، کمرے کے بعد ایک سیڑھی تھی، سیڑھی کے نیچے بلی کی شکل کا کوئی جانور بیٹھا تھا۔ اس کے دونوں طرف منہ تھے ساخت گول سی تھی۔ نانی اماں نے اس کو دوسری بار سیڑھی کراس کرنے پر دیکھا اور ڈر گئیں۔ نانا ابا کو قرب و جوار کے لوگوں کو بلایا تو پتہ چلا کہ وہ براؤن رنگت کی کوئی چیز ہے۔ مغرب کا جھٹپٹا تھا اور اس زمانے میں بجلی وغیرہ نہیں تھی پتہ نہیں  چلا کہ کیا چیز ہے۔ رات کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا لہذا اس شے کو ایک مٹکے میں ڈال کر مٹکے کا منہ مٹی سے پاٹ دیا اور جب صبح کھولا تو پتہ چلا کہ مٹکے کا منہ یونہی بند تھا مگر وہ چیز غائب تھی۔

            اس وقت نانی اماں کا ایک بیٹا تھا جو صحت مند تھا، اس کے بعد یکے دیگرے بیٹے ہوئے مگر ان میں سے چار پیدائش کے وقت بڑے تندرست تھے مگر پھر تیرہ دودو برس کی عمر تک آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ پاؤں سوکھتے چلے گئے، صحت گرتی چلی گئی۔ پہلے تو چلتے چلتے ذرا سی ٹھیس سے گرنے لگے پھر بالکل بیٹھ گئے اس کے بعد ان کے ہاتھوں کی حرکت بھی ختم ہو گئی۔ پاؤں ٹخنوں سے پنجوں سمیت مُڑ گئے اور اس کے بعد بالکل مفلوج ہوگئے۔ جسم کا کوئی حصہ کام نہیں کرتا تھا اور یہ لوگ ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گئے۔ ان کی زبان موٹی ہوتی چلی گئی اور زیادہ تر منہ سے تھوڑی سی باہر رہتی تھی۔ خاص کر سوتے ہوئے مستقل باہر رہتی تھی۔ اس طرح یہ لوگ سترہ اٹھارہ برس کر عمر تک انتقال کر گئے۔ چہرے پر آخر وقت تک بھی تازگی اور شادابی رہی تھی۔

            چودہ سال ہوئے نانی اماں کا انتقال ہو گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد ہماری منجھلی خالہ کے چھوٹے بیٹے بھی بالکل اسی طرح سے سات سال کی  عمر سے اس بیماری کا شکار ہو کر سترہ برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔

            اس کے بعد بڑی خالہ کے چھوٹے بیٹے کا بھی یہی حال ہوا وہ چھ برس کی عمر میں شکار ہوا اور پندرہ برس کی عمر میں اس کا بھی انتقال ہوگیا اور اب ہمارا چھوٹا بھائی جس کی عمر گیارہ برس ہے وہ بھی بیماری کی اس اسٹیج پر ہے جس میں وہ صرف بیٹھ سکتا ہے۔ وہ بھی ذرا سی ٹھیس سے بُری طرح گرتا ہے۔ صرف ہاتھ کی انگلیاں بمشکل حرکت کر سکتی ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ان کا علاج نہیں کرایا گیا بلکہ بچپن ہی میں پولیو کے ٹیکے اور سیرپ  وغیرہ پلوایا گیا تھا اس کے علاوہ بے انتہا علاج ہوا۔ حکیمی ڈاکٹری و فقیری اور عامل وغیرہ کا بھی علاج کرایا مگر بے سود۔

            ڈاکٹر نے اس بیماری کو لاعلاج قرار دیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ بیماری نانا ابا کی صرف بیٹیوں اور نواسیوں کی اولاد نرینہ ہی کو لاحق ہوئی ہے ان کے بیٹے اور پوتے خدا کا شکر ہے کہ اس سے  مبرا ہیں۔

            اب یہ مسئلہ بہت سنگین ہو گیا ہے، وہ اس طرح کہ ہماری بڑی خالہ کی بڑی بیٹی کے تیسرے بیٹے کو یہ بیماری ہو گئی ہے۔ وہ پانچ برس کا ہے اب تک تو چلتا ہے مگر ذرا سی ٹھیس سے گر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ منجھلی خالہ کی چھوٹی بیٹی کا بڑا بیٹا بھی اسی بیماری کا شکار ہے، اس کا حال بھی دوسرے بچے جیسا ہے۔ ان دونوں کا علاج جدید طریقوں سے ہو رہا ہے مگر اب تک کوئی فائدہ نہیں محسوس ہو رہا ہے۔ یہ سب بچے بہت صحت مند اور خوبصورت اور ذہین تھے۔

            طریقہ علاج بتائیں کہ ہم ان معصوم بچوں کو اس مہلک مرض سے بچا سکیں۔ یہ مرض ہم سب لڑکیوں کے مستقبل کے لئے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے کیونکہ  لوگ اسے خاندانی بیماری کہہ کر طعنہ دیتے ہیں۔ اس کا  اثر خدا نخواستہ ہم پر اور آنے والی نسلوں پر نہ پڑے۔ ہمیں تفصیل سے مناسب علاج بتائیں۔

 

جواب:   دماغ میں کھربوں خلیے ہوتے ہیں اور ان خلیوں کی فیڈنگ (Feeding)  برقی رو سے ہوتی ہے۔ یہ برقی رو جب ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو اس ٹکراؤ سے بے شمار رنگ بنتے ہیں۔ ہماری زندگی کو چلانے والی کیفیات اور جذبات و احساسات سب انہی رنگوں پر قائم ہیں۔

            کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دماغ کے اندر برقی رو کا ہجوم ہو جاتا ہے اور اتنا زیادہ ہجوم ہو جاتا ہے کہ برقی رو کو گزر کر زمین میں ارتھ ہونے کا راستہ نہیں ملتا، نتیجے میں دماغ کے اوپر برقی رو کے ہجوم کا وزن پڑتا ہے۔ اس کی ابتدا کسی طرح ہو، چاہے دماغ میں رو کا ہجوم تھوڑا ہو یا اچانک ہو دباؤ کی بنا پر خلیوں کی اندر کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں، یہاں تک کہ خلیوں کی جو  ڈیوٹی ہے یا وہ پوری نہیں ہوتی۔ اگر خلیوں کی رو میں ترتیب نہ رہے تو دماغ کی وہ صلاحیتیں  جو اعصابی نظام کو متحرک رکھتی ہیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ چند ہزار خلیوں کے بے ترتیب ہونے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی دماغی بیماری لاحق ہو جاتی ہے اور اس دماغی بیماری میں پہلا نمبر بخار کا ہے ان بخاروں کی بہت ساری قسمیں ہیں مثلاً ٹائیفائیڈ، مادی بخار ، لال بخار، گردن توڑ بخار ، کالا بخار وغیرہ وغیرہ۔

            خون کے اندر جب برقی رو متوازن نہیں رہتی تو آدمی صحت مند نہیں رہتا اور رو کے غیر متوازن ہو جانے سے وہ پٹھے جو جوڑوں کو سنبھالتے ہیں ان کے اندر کوئی نہ کوئی مقدار گھٹ جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے اور پٹھے خشک ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آدمی چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ اگر مرض کی تشخیص اور صحیح علاج نہ ہو تو نشونما کی مدت پندرہ سے بیس سال تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد دماغ اعصاب کو اور جسم کو سنبھالنے سے قاصر  ہو جاتا ہے۔

            روحانی طرزوں میں اس کا علاج برقی رو کو متوازن کرنا ہے۔

            برقی رو کے ٹوٹنے سے چونکہ رنگ بنتے ہیں اس لئے اگر رنگوں کا توازن بحال کر دیا جائے تو اعصاب بھی درست رہتے ہیں اور عمر بھی بڑھ جاتی ہے۔

            طریقہ علاج یہ ہے کہ ۱۲x۱۲ فٹ کا ایک گول کمرہ بنایا جائے اور اس کمرے کی مشرق اور مغرب کی دیواروں میں سرخ، نیلے، پیلے ، ہرے، جامنی اور سفید رنگ کے قد آدم کے برابر ( تقریباً ساڑھے پانچ فٹ) شیشے لگائے جائیں اور ان شیشوں کے اوپر دبیز پردے ڈال دیئے جائیں۔ پردے اس طرح ہوں کہ جب انہیں کھولا جائے صرف ایک رنگ کا شیشہ کھلے۔ صبح سے سورج کے زوال تک نیلا، سرخ اور سبز کے شیشوں پر دو دو گھنٹے کے وقفوں سے پردہ ہٹایا جائے اور مریض کو اس روشنی میں لٹایا جائے۔ سورج زوال ہونے کے بعد نارنجی، جامنی اور سفید رنگ میں لٹایا جائے۔ یہ علاج نہایت کامیاب علاج ہے۔

            آپ اپنے گھر کی بالائی منزل پر اس علاج کا اہتمام کر سکتی ہیں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔