Topics

ورد و وظائف کی توجیہہ


روحانی علوم کے ہر مکتبہ فکر میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن کو ورد کی صورت میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ اوراد مختلف مقاصد حاصل کرنے کے لئے پڑھے جاتے ہیں۔ علمی اعتبار سے اس بات کی کیا توجیہ ہوگی کہ صرف الفاظ کو متواتر پڑھنے سے کوئی نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مسلسل ورد کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔


جواب:   جب ہم کسی چیز کو بیان کرتے ہیں تو اس کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ صفات کا تذکرہ کئے بغیر کسی وجود کی تشریح ممکن نہیں ہے۔ باالفاظ دیگر صفحات کے مجموعے کا نام شے ہے۔ جب ہم مادی خدوخال کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں چیز ٹھوس ہے، مائع ہے، گیس ہے۔ اس میں فلاں رنگ پائے جاتے ہیں ، یہ فلاں کیمیائی اجزاء سے مل کر بنتی ہے۔ہیتکے اعتبار سے گول ہے، چوکور ہے یا کوئی اور خاص شکل رکھتی ہے۔ صفحات کے مجموعہ کو کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے۔ نام ایک علامت ہے جو مخصوص صفحات کی ترجمانی کرتی ہے۔ مثلاً جب ہم پانی کہتے ہیں تو اس سے مراد وہ  سیال شے ہے جو پیاس بجھانے کے کام آتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم پانی کی کتنی صفات سے واقف ہیں۔ جب ہم پانی کہتے ہیں تو سننے والے کے ذہن میں پانی کی صفات آتی ہیں۔ اسی طرح لکھنے والی چیز کو قلم کا نام دیا گیا ہے۔ چناچہ جب کوئی شخص قلم کہتا ہے تو اس سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو لکھنے کے کام آتی ہے۔ کوئی تحریر جو نقش کا مجموعہ ہوتی ہے، اس  کی روح یا وہ صفات وہ معنی ہیں جو تحریر کے پیچھے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہےکہ ہم صفات اور صفات کے مجموعے کو کس  علامت سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ علامت ایک اشارہ ہوتی ہے۔ علامت کو اسم بھی کہا جاتا ہے۔ روحانی علوم کے مطابق کائنات صفات کا مجموعہ ہے۔ صفات کی باہمی ترکیب سے تخلیق عمل میں آتی ہے۔

            روحانی سائنس دانوں نے روح کی گہرائی میں صفات کا مشاہدہ کیا ہے اور ان صفات کو مختلف نام دیئے۔

            انبیاء اور پیغمبروں نے وحی کی روشنی میں صفات کا علم حاصل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کائنات میں کام کرنے والی صفات اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس ہیں۔یہ صفات اللہ کی ذات میں کل کی حیثیت میں موجود ہیں جبکہ کائنات کو ان کا جزو عطا ہوا ہے۔ مثلاً  اللہ تعالیٰ بصیر ہیں، یعنی ان میں دیکھنے کی صفت موجود  ہے اور مخلوق میں بھی دیکھنے کی قوت کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سماعت کے حامل ہیں اور مخلوق میں بھی سماعت عمل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تخلیق کرنے والوں میں سب سے بہترین خلق کرنے والا ہوں یا اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے گویا اللہ تعالیٰ میں ہر صفت درجہ کمال  رکھتی ہے، لامحدود ہے لیکن مخلوق میں صفات محدود ہیں۔

            کوئی بھی اسم یا خاص الفاظ کو ظاہر  کرتے ہیں۔ جب ان الفاظ کو پڑھا جاتا ہے تو ذہن میں صفات متحرک ہو جاتی ہیں ۔ حرکت کا مظاہرہ روشنی، انرجی یا الیکٹریسٹی کی صورت میں ہوتا ہے اور یہ روشنی ذہن میں ذخیرہ ہونے لگتی ہے۔ اگر آدمی کا شعوری اسلوب صحیح طرزوں میں عمل کرتا ہے تو روشنی میں موجود صفات عمل در آمد کرتی ہیں بصورت دیگر روشنی کا مطلوبہ مظاہرہ ممکن نہیں رہتا ۔ مثال کے طور پر ایک غبارے میں ہوا بھر کر اس کا منہ کھول دیا جائے تو وہ اوپر اُڑجاتا ہے لیکن اگر  غبارے کو پھاڑ دیا جائے تو ذخیرہ شدہ ہوا کا دباؤ ختم ہو جائے گا اور غبارہ اُڑ نہیں سکے گا۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔