Topics

کیا وجہ ہے کہ سائنسی ایجادات نوع انسانی کے لئے عذاب جاں بن رہی ہیں۔


سائنسی ترقی کا مطمع نظر سکون ، آسائش اور راحت حاصل کرنا ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روز افزوں ترقی اور نت نئی ایجادات سے جس قدر آسائشیں ملی ہیں پریشانیوں کا تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ نے کتاب نظریہ رنگ و نور میں لکھا ہے اج کا سائنٹسٹ اگرچہ یہ کھل کر اس بات کا اثہار نہیں کرتا لیکن مجھے یقین ہے سائنٹسٹ نئی نئی ایجادات میں قرآن میں بیان کردہ فارمولوں سے استفادہ کر رہا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ سائنسی ایجادات نوع انسانی کے لئے عذاب جاں بن رہی ہیں۔

 

جواب :   زندگی کا تجزیہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آدم و حوا کی اولاد خوشگوار زندگی گزارنا چاہتی ہے لیکن مادی نظریہ ہر ہر قدم پر انہیں مایوس کرتا ہے کہ مادہ (Matter)   ہر لمحہ فانی اور متغیر ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ سچی خوشی کیا ہے اور کس طرح حاصل کی جاتی ہے۔ سچی خوشی سے واقف ہونے کے لئے ضروی ہے کہ ہم اپنی اصل کو تلاش کریں۔ ہماری اصل کیا ہے اس کے لئے ہمیں قرآن سے رجوع کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ہم اپنی اصل سے واقف نہیں ہوں گے۔

            سائنسی ترقی کا دارو مدار ظاہری وسائل میں ریسرچ کر کے ان کے اندر مخفی صلاحیتوں کا کھو لگانا ہے۔ بے شک وہ قومیں جنہوں نے وسائل میں تفکر کیا اور جدو جہد کے بعد نئی نئی  اختراعات کیں دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان سے محروم ہیں۔ قلبی اطمینان اور روحانی سکون سے یہ قومیں اس لئے محروم ہیں کہ یہ حقیقی دنیا سے ناواقف ہیں۔ تمام آسمانی کتابیں اورآخریکتاب قرآن میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا، حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا، حقیقت کے اوپر خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے اور حقیق دنیا سے واقف لاگ پرسکون رہتے ہیں۔

            موجودہ دور ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں، بے سکونی اور ذہنی انتشار سے نوع انسانی دو چار ہوئی ہے اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ ترقی انفرادی ہو یا قومی سطح پر ہو اگر اس میں خلوص اور ایثار کار فرما نہ ہو تو اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ انفرادی یا اجتماعی ذہن کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔

            جن قوموں سے ہم مرعوب ہیں اور جن قوموں کے ہم دست نگر ہیں ان کی طرزِ فکر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو دھوپ کی طرح عیاں ہے کہ سائنس کی ساری ترقی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کر کے ساری دنیا کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے۔ ایجادات کے پس منظر میں یہ غایت ہے کہ زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کر کے امداد کے پُر فریب جال میں دوسری قوموں کو مقروض کر دیا جائے اور سود در سود عذاب میں مبتلا کر کے ان کے اوپر اپنا تسلط قائم کر لیا جائے۔ اس ترقی میں اللہ کے زہن کے مطابق نوع انسانی کی فلاح مضمر نہیں ہے، اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے اور خود ان قوموں کے لئے جنہوں نے ایجادات کی ہیں مصیبت اور پریشانی بن گئی ہے۔ صاحب ِ بصیرت لوگ کہتے ہیں کہ یہ ساری ایجادات جو آتش فشاں بھٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ایک روز زمین کو جہنم بنا دے گی۔ ترقی یافتہ قومیں خود بھی جہنم کی طرف جا رہی ہیں اور نوع انسانی کو بھی جہنم کی طرف دھکیل رہی ہے۔

            زمین کے اوپر موجودات کا مشاہدہ کیجیئے، اندھی آنکھوں سے بھی نظر آئے گا کہ اللہ نے جو وسائل پیدا کئے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ کی کسی ضرورت سے ہو، اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ اس کے باوجود کہ اللہ کو کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے توازن، ترتیب اور موسموں کے رد وبدل کے ساتھ وسائل فراہم کئے جارہے ہیں۔ اگر کسی موسم میں آم کی ضرورت ہے تو ایک نظام کے تحت درخت پر پھول آئے گا۔ ام لگیں گے اور ان اموں سے لوگوں کی ضروریات پوری ہوں گی۔

            چونکہ انسان وسائل کا محتاج ہے اس لئے وہ اس طرح تو وسائل سے بے نیاز نہیں ہو سکتا کہ وہ ہر طرف سے اپنا رشتہ منقطع کر لے لیکن یہ طرزِ فکر اختیار کر سکتا ہے کہ یہ وسائل جو میری جدوجہد سے ظہور میں ائے ہیں ، پوری نوع انسانی کا حصہ ہیں۔ جس طرح میں ان سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اسی طرح نوع انسانی کو فائدہ اُٹھانے کا پورا پورا حق  حاصل ہے۔

            اللہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کا کوئی سلہ نہیں چاہتا۔ بندہ جب اختیاری طور پر اس طرزِ فکر کو اختیار کر لیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی مخلوق کے کام آئے تو اس کے اندر  وہ طرزِ فکر مستحکم ہو جاتی ہے کہ جو طرزِ فکر انبیاء کرام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے۔ اس کے اوپر سے انفرادی سوچ، ذاتی منفعت اور مال و زر جمع کرنے کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ بہرحال و قال میں مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ اس کے اندر ایثار اور خلوص کا ایسا پیٹرن تشکیل پا جاتا ہے جو اللہ کی صفت صمدیت سے ہم رشتہ ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔