Topics

کائنات کی حرکت کس اصول پر قائم ہے


ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں موجود ہر شے ایک سمت سےگھٹ رہی ہے اور دوسرے سمت سے بڑھ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ مسلسل اور متواتر ایک حرکت ہے۔ جس کی ایک چین (Belt)  بنی ہوئی ہے۔ ہر حرکت شعور کے اوپر قائم ہے۔ شعور اور لاشعور دو رُخ ہمارے سامنے ہیں یعنی کہیں سے زندگی ( بشمول تمام حواس) آرہی ہے اور کہیں جا رہی ہے۔

            سوال یہ ہے کہ ہماری حرکتیں اور کائنات کی حرکت کس اصول پر قائم ہے۔

            حاجی ادریس احمد ( آزاد کشمیر)

 

            ساری کائنات اور کائنات کی تخلیق چار شعوروں یا ایک شعور اور تین لاشعوروں پر قائمہے۔ ہم جب اوپر سے نیچے یعنی صعود سے نزول کی طرف کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں تو چوتھے لاسشعور کو شعور اول قرار دیتے ہیں۔ تیسرا لاشعور قرآن پاک کی زبان میں اسمائے الٰہیہ یا صفات الٰہیہ ہے۔ اسمائے الٰہیہ جب خود کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اندر حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت اللہ کے حکم کے ذریعے پیدا ہوتی ہے یعنی ذات الٰہیہ اپنی صفات کا مظاہرہ چاہتی ہے۔

جب اسمائے الٰہیہ عالم اظہار کی طرف میلان کرتے ہیں تو

ان کے اندر احکام کا رنگ غالب ہو جاتا ہے۔ احکام کا رنگ

شعور اول سے جب شعور دوم میں منتقل ہوتا ہے تو امر الٰہیہ

کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی امر الٰہیہ روح ہے۔

            اس بات کو عام فہم زبان میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ ساری کائنات اللہ کی صفات پر قائم ہے۔ صفات جب اللہ کے احکامات کے ذریعے مظہر بنتی ہیں تو صفات کے اندر دراصل ایک نزولی حیثیت قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔

             اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک پروگرام ہے۔ وہ پروگرام کائنات کی شکل میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ اس پروگرام کو صفات الٰہیہ کہتے ہیں۔ ان صفات میں جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو کن کہہ دیتے ہیں۔ کن ہی در اصل الٰہی امر ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے قائم ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

            صفات کے اندر جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو خدوخال اور شکلیں اور صورتیں رونما ہوتی ہیں۔ یہ خدوخال تین مراحل سے گزر کر مادی خدوخال اور شکلو صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔کائنات کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح کائنات کو بنایا کائنات بحیثیت مجموعی ایک جگہ پر قائم ہے۔ کائنات بحیثیت  مجموعی اس طرح موجود ہے کہ کائنات میں موجود ہر ” شے“ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہے۔

            ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا ہر ذرہ موجود بھی ہے اور ہر ذرہ دوسرے ذرے میں پیوست  بھی ہے۔ مثلاً جب ہم کائنات کی اس اجتماعی حیثیت کو دیکھتے ہیں یا لاشعوری  آنکھ مشاہدہ کرتی ہے تو نظر آتا ہے کہ شکل و صورت ایک ہے۔ مثلاً ایک کبوتر ہے، انسان کے اندر لاشعوری آنکھ جب کبوتر کو دیکھتی ہے تو کبوتر کے اندر انسان ہے اور انسان کے اندر کبوتر ہے۔ کبوتر کے اندر بکری ہے۔ بکری کے اندر شیر ہے ۔ شیر کے اندر نباتات سے متعلق نوعیں ہیں اور بے شمار ذرات ہیں اور ان ذرات کے اندر اجرام فلکی، ستارے، سیارے ، فرشتے وغیرہ ہیں۔ اس یکجائی کائناتی فلم کا نام ” عالم ارواح“ ہے۔

کائناتی فلم یا عالم ارواح اجتماعی حیثیت سے نزول کرتی

ہے اور ہر نزول نوعی شکل میں پوری کائنات کا الگ الگ

کر دیتا ہے۔ پھر نوعی تحریکات مزید نزول کرتی ہیں اور

نوعی تحریکات کا نزول ہمیں فرد سے متعارف کراتا ہے۔

            کائناتی یکجائی پروگرام بہتر طریقہ پر سمجھنے کے لئے دوسری طرح بیان کرتے ہیں۔ ساری کائنات نوعی اعتبار سے الگ جگہ قائم ہے۔ ہر نوع دوسری نوع کے اندر نظر آتی ہے۔

            حرکت کا دوسرا  مقام یہ ہے کہ کائنات کی اجتماعی حیثیت نوعی اجتماعی حیثیت میں نزول کرتی ہے اور ہر نوع الگ الگ ہو جاتی ہے۔ ہر نوع کا الگ الگ پیٹرن(Pattern)                ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ کائنات کے تیسرے نزول میں ہر نوع نزول کر کے انفرادی حیثیت میں خدو خال اور مادی اجسام کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے۔ انہی مادی اجسام کو ” موالید ثلاثہ“ کہا جاتا ہے۔ موالید ثلاثہ نباتات، جمادات اور حیوانات کو کہتے ہیں۔

            

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔