Topics

خلوص و ایثار کا صلہ


زمانہ کے نشیب و فراز بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں کہ انسان زندگی کی جن اقدار کو مقصد حیات قرار دے لیتا ہے ان کو بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے ، میرے ساتھ بھی کچھ اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ان دنوں جبکہ میں نے شعور کی پہلی منزل طے کر لی تھی  میرے بہت اچھے اچھے رشتے آئے۔ والدین اور خاندان کے دوسرے بزرگوں کی نصحیت کے باوجود میں نے ہر رشتہ کو رد کر دیا۔ میرے ذہن میں سرف ایک بات تھی کہ مجھے پڑھ لکھ کر قوم کی خدمت کرنا ہے۔ اگر میں شادی اور بچوں کے جھمیلے میں پڑ گئی تو میرا نصب العین تباہ ہو جائے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پہلے والد داگ مفارقت دے گئے اور اس کے بعد والدہ بھی دار فانی سے سدھار گئیں۔ پسماندگان میں بھائی اور بہنیں میرے حصے میں آئیں۔

            میں نے اپنے بہن بھائیوں کی تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم نے میری راہنمائی کی اور مجھے ایک اعلیٰ پوسٹ پر فائز کر دیا۔ تعلیم کے بعد سب بھائی بہن اپنے نونہالوں میں مگن ہو کر مجھے بھلا بیٹھے۔ اب میری وہ قدر و منزلت نہیں ہری فی الواقع جس کی میں مستحق تھی۔

            رشتہ کے ایک عزیز جو عمر میں مجھ سے سات سال چھوٹے ہیں اور جن کو میں نے مالی اور ذاتی مراسم سے اچھا کاروبار کرا دیا ہے مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ حالات کے پیشِ نظر میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں اس شریف النفس انسان کو اپنا شریکِ حیات بنا لوں مگر میرے ذہن میں یہ الجھن کانٹا بن کر چبھ رہی ہے کہ عمر کے فرق کو کیسے مٹایا جا سکتا ہے۔ میرے اندر زندگی کا وہ ولولہ بھی نہیں ہے جو کسی ہمسفر کی دلجوئی کے لئے ہونا ضروری  ہے۔ دوسری بات میں یہ سوچتی ہوں کہخاندان والے کیا کہیں گے۔ گزارش ہے کہ اپ مجھے مشورہ دیں تاکہ میں اپنی باقی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔

            ناہید شفیق                                   (کراچی)

 

جواب:   روحانی علوم میں یہ بات ضروری ہے کہ مسئلہ کے ہر پہلو کی چھان پھٹک کی جائے۔ آپ کے خط کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔

            ۱۔         شادی جیسے اہم اور مقدس فریضہ کی انجام دہی میں کوتاہی کس بنیاد پر ہوئی ہے؟

            ۲۔        بہن بھائیوں سے جو امیدیں وابستہ کی گئیں وہ کس حد تک فطری ہیں؟

            ۳۔         انحطاط پذیر عمر شادی کے رحجان میں کون سے عوامل کارفرما ہیں؟

            ۴۔         کیا عمر کا تضاد۔۔۔۔ کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے سدِراہ ہو سکتا ہے۔

 

            آیئے ان چار مسائل پر علم روحانیت کی روشنی میں غور کریں۔

            میرے خیال میں شادی سے انکار کی وجہ وہ نہیں ہے جو آپ نے اپنے مراسلہ میں بیان کی ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کے والدین میں ذہنی ہم آہنگی مفقود تھی، بات بات پر گھر میں لڑائی جھگڑا اور اپس میں طعن و تشنیع نے گھر کی فضا مکدر کی ہوئی تھی۔ آپ کا زہنی ارتباط والد کی نسبت والدہ کے ساتھ تھا اس کشمکش نے آپ کے  لا شعور  میں مرد ذات سے نفرت پیدا کر دی یہی وجہ ہے کہ اپ نے شادی جیسے پاکیزہ جذبے سے مغاوت کی۔

            بہن بھائیوں سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ گیر فطری تھیں اس لئے کہ کوئی مرد اپنی بیوی بچوں کے ساتھ یا کوئی عورت خاوند اور بچوں کے ساتھ جو دلی رشرہ رکھتا یا رکھتی ہے وہ بہن کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یہ قانون قدرت ہے اس کی شکست وریخت انسان کے بس سے باہر ہے۔

            کائنات کا یکجائی پروگرام لوح  محفوظ پر نقش ہے اور اس پروگرام کی نشریات یہی کائنات کا وجود ہے۔ یہ عجیب سر بستہ راز ہے کہ کائنات میں ہر شے دوسری شے سے ایک مخفی رشتہ میں منسلک ہے۔ ہم درخت اس لئے کہتے ہیں کہ اس درخت اور ہمارے درمیان ایک رشتہ ہے۔ پرندوں، چوپایوں کا وجود بالکل ہمارے وجود کی طرح ہمارے اندر موجود ہیں۔ علم روحانیت ہمیں بتاتا ہے کہ پوری کائنات کی اساس  لوح محفوظ ہے۔ لوح محفوظ کے سارے نقوش (کائنات) باہم گیر فلمی فیتے کی طرح ایک وجود  رکھتے ہیں۔ جب ان نقوش کو نور کی لہریں زمین کی اسکرین پر پھینکتی ہیں تو سارے نقوش جدا گانہ انفرادیت کے ساتھ مظاہر بن جاتے ہیں چونکہ ان سب کی بنیاد ایک ہے اس لئے خاص قانون کے تحت ہر فرد کی لہر دوسے فرد کے اندر سے ہو کر گزرتی رہتی ہے۔

            لہروں کا یہ نظام ہی کائنات میں موجود ہر شے کے تعارف کا سبب بنتا ہے۔  جو آدمی یا جو شے جتنا قریب ہوتی ہے لہروں کا اثر بھی اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔ یہ گہرائی ہی قربت اور محبت کا روپ دھارتی ہے۔ شادی کے بعد مرد اور عورت قربت کی وجہ سے ایک دوسرے کے اندر کام کرنے والی لہروں کو گہرائی میں قبول کرتے ہیں جبکہ اولاد کے لئے یہ رشتہ زیادہ مستحکم ہوتا ہے، ایسی صورت میں قدرتی طور پر بہن بھائیوں کا التفات وہ نہیں رہے گا جو شادی سے پہلے ہو سکتا ہے۔

            عمر کے انحطاط کے ساتھ لاشعور کا وہ خلا جس کی وجہ سے صحیح طرز فکر متاثر ہوگئی تھی پُر ہو گیا ہے۔۔۔۔ زندگی کے نشیب و فراز اور سنجیدگی نے آپ کے اندر صحیح اور حقیقی طرز فکر کو اجاگر کر دیا ہے۔۔۔ اسی طرزِ فکر نے اپ کے اندر شادی کا رحجان پیدا  کیا ہے جو بلا شبہ حقیقت پر مبنی ہے۔ قربت اور دلی ہمدردی کے ساتھ ازدواجی زندگی میں عمر کا کم و بیش ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

            رہی  یہ بات کہ خاندان والے کیا کہیں گے یہ بات محض واہمہ ہے۔ خدانخواستہ آپ معاشرے کی قدروں سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کر رہی ہیں۔ اپ یقی کیجیئے یہ شادی نہایت کامیاب رہے گی اور انشاء اللہ زندگی کی ساری ناکامیاں کامرانیوں میں بدل جائیں گی۔ قدرت اپ کے خلوص و ایثار کا صلہ  دینا چاہتی ہے۔

            وقت ضائع کئے بغیر سنت ِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر عمل کیجیئے۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔