Topics

حسبِ دلخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں


کوشش اور جدو جہد کے باوجود حسبِ دلخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟

                                      باسط علی ( این ای ڈی انجینرگ یونیورسٹی، کراچی)

 

جواب:                             قانون قدرت یہ ہے کہ جب کوئی بندہ جدوجہد اور کوشش کرتا

                                      ہے اور اس جدو جہد اور کوشش کا ثمر کسی نہ کسی طرح اللہ کی

                                      مخلوق کے کام آتا ہے تو وسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

            زمین پر اللہ نے جتنی بھی اشیاء تخلیق کی ہیں ان کے اندر بے شمار صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ کوشش سے جب ان اشیاء کے اندر صلاحیتوں کو متحرک کر دیا جاتا ہے یا ان اشیاء میں محفوظ صلاحیتوں کو کھوج لگایا جاتا ہے تو ایجادات کے بے شمار راستے کھل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے لوہا تخلیق کیا ۔ من حیث القوم یا انفرادی طور  پر جب لوہے کی صفات اور لوہے کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگایا جاتا ہے تو لوہے  سے لوگوں کے لئے بے شمار فائدے حاصل ہو جاتے ہیں۔ سائنسی ترقی میں مشکل سے کوئی ایسی چیز ملے گی جس میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا عمل دخل نہ ہو۔

            علماء باطن اولیا ء اللہ فرماتے ہیں کہ

                                      انفرادی زندگی اور قومی زندگی لوح  محفوظ پر نقش ہے۔

                                      انفرادی حدود میں کوئی بندہ جب کوشش  اور جدو جہد

                                      کرتا ہے تو اس بندہ کے اوپر انفرادی فوائد ظاہر ہوتے

                                      ہیں ۔ قومی اعتبار سے ایک، دو ، چار، دس بندے جب

                                      تک کوشش کرتے ہیں تو اس جدو جہد اور کوشش سے

                                      پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔

 

                                      بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک

                                      نہیں بدلتے جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ

                                      لائے۔ (القرآن)

            جو قومیں خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشش کرتی ہیں ان کو ایسے وسائل کر دیئے جاتے ہیں جن سے وہ معزز اور محترم بن جاتی ہےاور جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں وہ محروم زندگی گزارتی ہیں۔ بندہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کو اگر صحیح سمتوں میں استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ اگر غلط طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ  یہ چاہتا  ہے کہ بندہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو اسی طرح استعمال کرے کہ جس سے اس کی اپنی فلاح اور اللہ کی مخلوق کی فلاح کا سمان میسر ہو۔ اللہ خالق ہے، رب ہے اور ربویت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کے انعامات اور اکرامات اور اللہ کے پیدا کئے ہوئے وسائل سے ساری مخلوق فائدہ اُٹھائے۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ریکارڈ ہے۔ اس ریکارڈ میں لوگوں کا عروج و زوال بھی لکھا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ قومیں اگر صحیح طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو ان لو عروج نصیب ہوگا اور اگر غلط طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو غلام بنا دی جائیں گی۔ ذلیل و خوار ہو جائیں گی۔

            ترقی اور تنزل جب زیرِ بحث آتا ہے تو ذہن اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ آخر ترقی یا تنزل میں کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ انفرادی یا اجتماعی جدو جہد کے نتیجہ میں ترقی نصیب ہوتی ہے  اور انفرادی  یا  اجتماعی تساہل اور عیش پسندی کے نتیجے میں قومیں عروج کے بجائے زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔

            ترقی کے دو رخ ہیں۔ ترقی یا عزت و توقیر کی ایک حالت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کو دنیاوی عزت اور دنیاوی دبدبہ اور دنیاوی شان و شوکت نصیب ہو۔

            ترقی کا سورا رخ جو فی الواقع حقیقی رخ ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظاہری حالت میں رہتے ہوئے مخفی دنیا میں جس  فرد یا قوم کی رسائی ہوتی ہے وہی اصلی ترقی ہے۔

            بے شک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا اور جدو جہد کے بعد نئی اختراعات کی ہیں، وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان سے قلب سے محروم ہیں۔ قلبی اطمینان اور روحانی سکون سے اس لئے محروم ہیں کہ حقیقت سے ان کا واسطہ یا تعلق  نہیں ہے۔ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے ، حقیقت دنیا سے نتعارف لوگ ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔ موجودہ دور بے شک ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعو بتیں ، پریشانیاں، بے سکونی اور ذہنی انتشار سے نوع انسانی دو چار ہوئی ہیں اس کی نظیر پہلے کے دور میں نہیں ملتی۔ اس ترقی کے پیچھے انفرادی ہو یا قومی ، ذاتی منفعت اور دولت پرستی ہے اور جب ترقی خالصتاً نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہے تو قوموں کو اطمینان اور سکون نصیب ہوتا ہے۔

                                     

                                      انفرادی یا اجتماعی ذہن کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔ طرزِ فکر میں

                                      اگر یہ بات ہے کہ ہماری کوشش اور اختراعات سے اللہ کی

                                      مخلوق کو فائدہ پہنچے گا تو یہ طرزِ انبیاء کی طرزِ فکر ہے اور یہی

                                      طرزِ فکر اللہ کی طرزِ فکر ہے۔

            اللہ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔ بندہ جب اختیاری طور پر اس طرزِ فکر  کو اختیار کر لیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی مخلوق کے کام ائے تو اسے ماورائی  شعور منتقل ہو جاتا ہے اور ماورائی شعور میں بندہ کا ذہن ہر آن، ہر لمحہ اس طرف متوجہ رہتا ہے کہ وہ کام کر رہا  ہوں جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔

            بار بار اس عادت یا عمل کا اعادہ ہونے سے پہلے اس کے مشاہدات میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، جو کچھ ہو چکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔

                                      ہر شے اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف  لوٹ رہی ہے۔

                                                                                                (القرآن)

            اس دنیا میں ہر انسان پابند بھی ہے اور بااختیار بھی۔ انسان وہی غذا کھاتا ہے جو اس کے لئے مقرر ہے۔ قوانین کائنات اس کے اوپر محیط ہیں۔ کوئی انسان اس بات پر اختیار نہیں رکھتا کہ سورج کو طلوع ہونے یا غروب ہونے سے منع کر دے۔ کسی انسان میں جرات نہیں ہے کہ بارش برسانے کا دعویٰ کر سکے۔ وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا ۔ انسانی ایجادات بھی صانع اکبر اللہ تعالیٰ ہی کسی نہ کسی تخلیق کی محتاج ہیں۔ سائنس ترقی کی کسی منزل پر بھی پہنچ جائے ، سائنسدان موت کے شکنجہ سے آزاد نہیں ہے۔

                                      اے انسان!۔۔۔ غور کر

                                      تیرا جینا، تیرا مرنا سب اللہ کے کرم کا محتاج ہے،

                                      تو کیوں خالق و مالک سے رجوع نہیں کرتا ۔۔۔۔

                                      کون نہیں جانتا جو پیدا ہوا ہے اسے کچھ وقت اس دنیا میں گزار کر رخصت ہو جانا ہے،

                                      جب تک اس دنیا میں ہے مسافروں کی طرح قیام کر،

                                      چاہے پیادہ چل۔۔۔۔ چاہے ہوائی جہازوں میں پرواز کر۔۔۔

                                      زمین پر اللہ کا دستر خوان بچھا ہوا ہے۔۔۔

                                      شہر کے ایک سرے پر چٹنی رکھی ہوئی ہے۔۔۔ اور

                                      شہر کے دوسرے کنارے پر پلاؤ ، قرمہ دستر خوان پر سجا ہوا ہے۔

            کم ہمت لوگ چٹنی پر گزارا کر لیتے ہیں اور باہمت افراد اللہ کی پھیلائی ہوئی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں۔ ایک قانون اور ضابطہ کے ساتھ۔۔۔ وسائل انسان کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے ” آسمانوں اور زمین میں ہر شے انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے “

                                      جوئندہ۔۔۔پائندہ

                                      جو کوشش کرتا ہے پا لیتا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔