Topics

اعمال کی جزاء اور سزا کی کیا حیثیت ہے


کتاب خواب اور تعبیر میں حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ عنہا کے والد ، حضرت لعل شہباز قلندر کی والدہ اور ہارون الرشید کی ملکہ زبیدہ کا خواب درج ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان تمام خوابوں کا ایک ایک حرف درست ثابت ہوا۔ خواب میں مستقبل کی نشاندہی کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی کچھ ہونے والا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ جب سب کچھ پہلے سے طے ہو چکا ہے تو پھر انسان کے اختیار اور اعمال کی جزاء اور سزا کی کیا حیثیت ہے۔

            نور جہاں                                     (پشاور)

جواب:                           سن رکھو کہ بدکاروں کے اعمال نامے سجین میں ہو ں گے۔ اور تم

                                    کو کیا خبر کہ سجین کیا ہے۔ ایک دفتر ہے جس میں لکھا  جاتا ہے ۔

                                    اس دن جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے۔ وہ جو انصاف کے دن

                                    کو جھٹلاتے  ہیں اور اس کو وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے بڑھا ہوا گناہگار

                                    ہے۔ جب اس کو ہماری آئتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو پہلے

                                    لوگوں کے افسانے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کے (برے) اعمال

سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔ بیشک یہ لوگ اس روز

 اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہونگے۔ پھر یہ لوگ

 یقیناً دوزخ میں جا داخل ہونگے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہی

 ہے وہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے

اعمال  نامے علیین میں ہونگے۔ تم کو کیا خبر کہ علیین کیا ہے۔

ایک دفتر ہے جس میں لکھا جاتا ہے۔ اسے مقرب فرشتے دیکھتے

ہیں۔ بےشک نیک لوگ جنت میں ہونگے۔ تختوں پر بیٹھے

دیکھ رہے ہونگے۔تم ان کے چہروں ہی سے نعمت کی تازگی

معلوم کر لو گے۔ ان کو خالص شراب مہر لگی ہوئی پلائی جائے

گی۔ اس کی مہر مشک کی ہوگی اور رغبت کرنے والوں کو اس

کی رغبت کرنی چاہیئے۔اور اس میں تسنیم ملی ہوگی۔ وہ ایک

چشمہ ہے اس میں سے مقرب پئیں گے۔( سورۃ المطففین)

            ہر شے جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہوگا وہ کہیں پہلے سے موجود ہے یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک وہ پہلے سے موجود نہ ہو کوئی آدمی اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے کہیں موجود ہے ہر شے کا براہ راست تعلق اللہ کی ذات سے ہے یعنی جس طرح اللہ کے ذہن میں کسی چیز کا وجود ہے اسی طرح اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

            کائنات کی تمام حرکات و سکنات ایک (Video Film)                                کی صورت میں ریکارڈ ہیں جس طرح اس فلم میں کائناتی مظاہر کے نقوش موجود ہیں اسی طرح بیشمار کہکشانی نظاموں میں نشر ہو رہے ہیں اس بات کو مثال سے سمجھیئے،

            اللہ تعالیٰ کی لا شمار تخلیقات میں سے ایک تخلیق آگ ہے۔ آگ کا وصف یہ ہے کہ اس میں روشنی ، رنگ، شعلہ، تپش اور گرمی ہوتی ہے۔ آگ کا استعمال یہ ہے اس سے چولہا جلا کر کھانا پکایا جاتا ہے،  روٹی پکائی جاتی ، بڑی بڑی بھٹیوں میں لوہا پگھلایا جاتا ہے، مختلف دھاتوں کو پگھلا کر ڈائیوں میں۔۔۔۔ چیزیں بنائی جاتی ہیں ۔ نوع انسانی کی ترقی و فلاح کے لئے اور تباہی و بربادی کے لئے قسم قسم کی مشینیں بنائی جاتی ہیں ، ان مشینوں کے ذریعے مہلک ہتھیار اور کار امد اوزار بنائے جاتے ہیں۔

            آگ کا ایک استعمال یہ بھی ہے اس سے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے،۔ پورے پورے شہر آتشیں اسلحہ اور تباہ کن بموں سے جل کر خاک ہو جاتے ہیں۔ آگ میں تعمیر و تخریب دونوں صلاحیتیں موجود ہیں۔

             لوح محفوظ پر دونوں طرزیں ریکارڈ ہیں یہ آدمی کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے لئے کون سی طرز کا انتخاب کرتا ہے بندہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کو تعمیر اور صحیح سمتوں میں استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں اگر تخریب اور غلط طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ جس سمت بھی قدم اُٹھایا جاتا ہے اس سمت کے لئے متعین شدہ تمام عوامل کڑی در کڑی پیش آتے ہیں اور بندے کا انفرادی یا بحیثیت مجموعی ریکارڈ بنتا  رہتا ہے ایک ریکارڈ یہ ہے کہ اس میں معنی اور مفہوم کا تعین نہیں ہے اور دوسرا ریکارڈ یہ  ہے کہ ارادہ اور اختیار سے کیا معنی اور مفہوم متعین کئے گئے ہیں۔ یہی ریکارڈ سزا و جزا کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

            خواب میں آدمی ماضی یا مستقبل کے حالات و واقعات دیکھ لیتا ہے۔ یہاں بھی یہی قانون نافذ ہے ذہن میں اگر تخریب ہے تو وہ نقوش ظاہر ہوتے ہیں جن کا نتیجہ سجیین (تخریب) ہے اور مثبت طرزِ فکر کا حامل اور تعمیری سوچ والا ہے تو نظر ان نقوش کا مطالعہ کرتی ہے جو علیین پر منتج ہوتے ہیں۔

            علم تعبیر میں خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور انبیاء کا معجزہ ہے۔ خواب کے نقوش میں کیا پیغام پوشیدہ ہے اس کی ترجمانی ہر ایک نہیں کر سکتا اسی لئے ہر ایک سے خواب بتانے کی ممانعت کی گئی ہے بتانے والا جو بھی معانی اخذ کرتا ہے خواب دیکھنے والے کا ذہن ان معنوں کو قبول کر لے تو اس کا مظاہرہ ہونا لازمی امر ہے اس لئے کہ خواب شعور کے اوپر لاشعور کا عکس ہے۔

            تعبیر بتانے والا جب تعبیر بتاتا ہے خواب دیکھنے والا اس کے الفاظ کو براہ راست لاشعور میں قبول کر لیتا ہے اور کوئی بات یا کوئی مفہوم نقش ہو جائے تو اس کا شعور پر مظاہرہ ہو جاتا ہے۔ خواب بیان کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ:

            ٭                                                                                                      تعبیر بتانے والا آپ کا ہمدرد ہو

            ٭                                                                                                          مخبوط الحواس نہ ہو

            ٭                                                                                                               اس کی طبیعت میں تکدر نہ ہو۔

            ٭                                                                                                                  نیک ہو۔ خوش اخلاق ہو اور خوش مزاج ہو

            ٭                                                                                                   خواب کی تعبیر کے علم سے کچھ نہ کچھ واقف ہو۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔