Topics

آدمی دید است باقی پوست است کی تفسیر


مثنوی شریف میں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

آدمی دید است باقی پوست است

دید آن باشد کہ دید دوست است

ترجمہ:                                                  آدمی نگاہ ہے، باقی گوشت پوست ہے۔ نگاہ یہ ہے کہ وہ دوست کو دیکھتی ہے۔

            مولانا روم اس شعر میں کیا رموز و نکات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آدمی کے اندر گوشت، ہڈیوں اور اعصاب کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ دل ایک لوتھڑا ہے اگر دل کی حرکت بند ہو جائے تو آدمی مر جاتا ہے۔ آنکھیں نہ ہو تو کچھ نظر نہیں اتا۔ دماغ نہ ہو تو عقل و شعور سے آدمی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ درخواست ہے کہ اس شعر کی تفسیر بیان کر دیں۔

            ڈاکٹر احمد ممتاز   ( اٹک)

            آدمی نگاہ ہے۔ نگاہ سے مطلب ایسی صفات ہیں جن کی دماغ کوئی تعریف بیان کر سکے۔ ذہن جب کسی کو آنکھوں سے اطلاع ملنے پر مخاطب کر کے دوبارہ پیغام رسانی کرتا ہے۔ تو اس پورے عمل کو ہم نظر کے قانون سے جانتے ہیں۔ نگاہ یا بصارت جب کسی شے پر مرکوز ہو  جاتی ہے تو اس شے کو  اپنے اندر جذب کر کے دماغ ی اسکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور پھر اس میں معانی پہناتا ہے۔

            جب  نظر کسی شے کو اپنا ہدف بناتی ہے تو دماغ کی اسکرین پر اس شے کا عکس پندرہ سیکنڈ تک قائم رہتا ہے اور پلک جھپکنے کے عمل سے آہستہ آہستہ مدھم ہو کر حافظہ میں چلا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کسی چیز کو پلک جھپکائے بغیر مسلسل پندرہ منٹ تک دیکھتے ہیں تو  اس عمل سے نگاہ قائم ہونے کا وصف دماغ میں پیوست ہو جائے گا اور دماغ میں یہ پیوستگی علم کی حقیقی معرفت سے آگا ہو جائے گی۔ مراقبہ میں کامیابی کے لئے نظر کا ایک جگہ پر ٹھہرنا ہی اہمیت رکھتا ہے۔

            نگاہ میں مرکزیت قائم کرنے کے لئے کوئی ارادہ ضرور ساتھ ہوتا ہے ۔ اس طرح کے ارادے کو محسوسات کی طرز پر  سمجھیئے کیونکہ اس عمل کی بار بار تکرار سے دماغ اگر یکسو نہ بھی ہو تب بھی یکسو ہو کر اس خیال کو قبول کر لیتا ہے اور ارتکاز توجہ سے نگاہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ دوست کا دیدار کر لیتی ہے۔

            زندگی بے شمار خواہشات کا مجموعہ ہے۔ ایک نوزائیدہ بچہ سے لے کر انتہائی بڑھاپے تک کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زندگی خواہشات کے خمیر سے مرکب ہے۔ خواہشات ہی زندگی یا خواہشات کی تکمیل کے مراحل کا نام ہے۔ اس زندگی کی تکمیل دو صورتوں پر ہوتی ہے۔

                        ۱۔ شعوری طور پر

                        ۲۔ لاشعوری طور پر

            یہ دونوں رخ لازم وملزوم ہیں۔ شعور یہ ہے کہ ہم اس شعور کے تابع ہونے کی وجہ سے ہمارے غیر واضح خیالات اور تصورات کا ہر قدم ماحول کی گھڑیوں میں بند اور جکڑا ہوا ہے جبکہ پہلی کیفیت جہاں پر ماحول کی گرفت انسان کو پابند نہیں کر سکتی اور جہاں خیالات میں کامیابی کا امکان سو فیصد روشن رہتا ہے۔

            اس حقیقت سے کوئی فرد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصوارات سے ہے۔ انسان تین پرت کے ملنے سے تخلیق ہوا۔ یہاں جس پرت سے جسم تخلیق ہوا اسے جسد خاکی کہتے ہیں جو وہم اور خیال سے محسوستی دنیا بناتا ہے اور انہیں تصورات کو معنی کا لباس پہنا کر خوشی یا غم کا مفہوم نکالتا ہے۔ اصل بات خیالات کو معنی پہنانا ہے۔ خیالات ہی زندگی کی راہ متعین کرتے ہیں۔ غم و اندوہ سے لبریز یا آرام و آسائش سے بھر پور زندگی پر خیال غالب رہتا ہے۔

            مذہبی نقطہ نظر سے انسان شک اور یقین دو راہوں پر سفر کرتا ہے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ دماغ میں شک کو جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں اور ذہن میں یقین کو پختہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

            قرآن پاک نے ”لاریب“ کو سمجھنے پر سب سے زیادہ زور اسی لئے دیا ہے  تاکہ سوچ جو دماغ میں وارد ہو رہی ہے اپنے یقین سے من جانب اللہ سمجھے۔ ذہن و قلب کو نور سے لبریز کر دے، جتنا زیادہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا زندگی کی حقیقی خوشیا اس کے اندر بھر جائیں گی اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہماری نگاہ اللہ کی نگاہ بن جائے اور ہم گوشت پوست سے مرکب جسم کو عارضی اور فانی سمجھیں۔ رسولاللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔

مومن کی فراست دسے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔