Topics
قرآن مجید میں تواتر سے فرمایا گیا ہے کہ قائم کرو
صلوٰۃ اور ادا کروزکوٰۃ۔ قرآن پاک کی کوئی
بات حکمت سے خالی نہیں ہے چناچہ ان دو ارکان کا ایک ساتھ تذکرہ بھی خالی از حکمت
نہیں ہے۔ علم روحانیت کی روشنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائیں۔
سلیم
محمود
جواب: انسانی
زندگی دو طرزوں میں سفر کرتی ہے، ایک کو نزول اور دوسری کو صعود کہتے ہیں۔ صعود کی
حالت کا نام انسانی اصطلاح میں خواب اور نزول
کی کیفیت کو بیداری کہا جاتا ہے۔ صعود کی حالت یعنی وجدان ذات سے قریب کرتی
ہے اور نزول کی حالت یعنی بیداری ذات سے دور کرتی ہے۔موجود ذاتی زندگی کے یہ دو
ضروری اجزاء ہیں جن کو اصطلاح میں زندگی کا تعین کہا جاتا ہے۔ عارفوں کی دنیا میں
ذات یا روح کے اندر سفر کرنے کا ذریعہ مراقبہ ہے اور ستارہ پرستوں کی دنیا میں
بیداری کے اندر سفر کرنے کا ذریعہ ہاتھ پیروں کی جنبش ہے۔ قرآن پاک کا پروگرام ان
دونوں اجزاء کی حفاظت پر زور دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ فرمایا ہے کہ قائم کرو
صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ۔ قرآنی پروگرام کے دونوں اجزا ء صلوٰۃ اور زکوٰۃ روح اور
جسمکا وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے انسان پر
لازم ہے۔ حضور ق کا ارشاد ہے۔
جب
تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ کو دیکھ
رہے
ہیں۔۔۔۔یا۔۔۔۔ یہ محسوس کرو کہ اللہ ہمیں
دیکھ رہا
ہے۔
اس ارشاد
کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی
میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی
چاہیئے۔
جب ایک
شخص دس بارہ سال کی عمر سے اٹھارہ بیس سال کی عمر تک جو اس شعور کی تربیت کا زمانہ
ہے اس طرح صلوٰۃ قائم کرے گا تو اس کا ذہن اللہ کی طرف رہنے کا اور جسم قیام و
رکوع ، قومہ و سجود، قعدہ اور جلسہ ہر قسم کی حرکات کا عادی ہو جائے گا۔ ذہن کا
اللہ کی طرف ہونا روح کا وظیفہ ہے اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ
ہے چناچہ صلوٰۃ کے ذریعہ کوئی فرد اس بات
کا عادی ہو جاتا ہے کہ اس قجدان اور بیداری کی صحیح کیفیت طاری رہے تاکہ زندگی کی
دونوں صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہو سکے۔ جب وہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف
متوجہ رہنے اور ساری دنیا کے کام انجام دینے کا عادی ہوتا ہے تو روحانی اور جسمانی
دونوں کیفیت سے یکساں طور پر روشناس رہتا ہے۔ یہی زندگی کی تکمیل ہے، یہی صلوٰۃ کا
پروگرام ہے۔
دوسرا
زکوٰۃ کا روگرام ہے جس کا منشاء مخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ تصوف میں اس
کیفیت کو ”جمع“ کہتے ہیں یعنی وہ کیفیت جس میں انسان ہر وقت اللہ اور اللہ کی
مخلوق دونوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک عارف کے لئے ”جمع“ پہلی منزل ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔