Topics

کون سا نظام ہے جس میں انسان ناکردہ خطاؤں کی سزا پاتا ہے


میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کیوں اچھے لگتے ہیں،۔ مرکزی مراقبہ ہال میں محفل میں شریک ہو چکا ہوں۔ حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر ہفتے میں ایک بار حاضر ہوتا ہوں۔

            کچھ عرصہ پہلے میں ایک خوشحال زمیندار تھا۔ حالات سے پریشان ہو کر کراچی آگیا اور یہاں ۳۶ مربع گز کے گھر میں رہتا ہوں۔ ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا لیکن پے در پے نقصانات  نے معاشی طور پر مجھے کنگال کر دیا ہے۔ بہتری کی کوئی ترکیب کار گر نہیں ہوئی۔ کاروبار ختم ہو گیا اور ذرائع آمدنی مفقود ہو گئے ہیں۔ اتنی  ذلت اور رسوائی کس قصور کی سزا ہے۔۔۔۔ پانچ معصوم بچوں کا کیا قصور ہے؟۔۔۔۔ میری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے کہ میں انہیں اگلی کلاسوں میں داخل کرا سکوں۔ میں نے دولت کو عیش و عشرت میں نہیں اڑایا پھر تنگ دستی کی سزا مجھے کیوں مل رہی ہے۔۔۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا یہ صلہ ملا کہ میرا خاندان خوشیوں سے محروم ہو گیا۔ اگر کوئی خطا ہو گئی ہے تو سزا مجھے ملنی چاہیئے تھی، بچے تو ویسے ہی معصوم ہوتے ہیں۔ میرے اندر مسلسل بغاوت کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ مجھے ان سے نجات دلایئے۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے قائل کریں کہ یہ کون سا نظام ہے جس میں انسان ناکردہ خطاؤں کی سزا پاتا ہے۔۔۔؟

            محمد فیضان خان                    (کراچی)

 

جواب:    جہاں تک قائل کرنے کا تعلق ہے  تو میرا منصب کسی کو قائل کرنا نہیں ہے۔ میں بہت کمزور ، اور ناتواں اور اللہ کی مخلوق کا ایک فرد ہوں۔ چونکہ آپ نے خط میں ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی وضاحت کرنے سے میرے اور بہت سارے بچوں کو مایوسی، ناامیدی اور بےزاری کی دلدل سے نکلنے کے لئے راستہ ملے گا۔۔۔

            اس لئے خط کا جواب روحانی سوال و جواب کے کالم میں لکھ رہا ہوں۔

            انسان ایسی زندگی چاہتا ہے جو فنا سے نا آشنا ہو۔ ایسی صحت چاہتا ہے جو بیماریوں سے متاثر نہ ہو، ایسی جوانی چاہتا ہے جو بڑھاپے میں تبدیل نہ ہو لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ صحت و تندرستی کے اوپر بیماریوں کا غلبہ ہوتا رہتا ہے۔ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے کتنا ہی فرار چاہے وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ فنا اور تخریب کا عمل جاری و ساری ہے۔ انسان کے اوپر جب پریشانی کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ تکلیف اور غم کے عالم میں  ایسے ایسے احساسات ابھرتے ہیں جن میں غم ، خوف، بغاوت ، بزدلی، عدم تحفظ اور بیزاری کا غلبہ ہوتا ہے۔ خوشنما زندگی تاریک نظر آتی ہے۔

            ہر آدمی جانتا ہے کہ انسان پیدائش کے بعد سے بڑھاپے تک مسلسل ایک جنگ لڑتا ہے ۔ وہ ہر حال میں فتحیاب ہو کر سرخرو بھی ہونا چاہتا ہے لیکن جیت بڑھاپے کی ہوتی ہے۔۔۔

            ہر آنکھ دیکھتی ہے کہ بڑھاپے کے اوپرموت چھا جاتی ہے۔۔۔حیات کی ابتدا کتنی ہی بہار آفرین ہو بالآخر خزاں اس کا مقدر ہے۔ سکھ ہو، چین ہو۔۔ مصیبت ہو، پریشانی ہو۔۔۔ لڑکپن ہو یا جوانی۔۔۔ ہر چیز فانی ہے۔ فنا  جب سامنے آتی ہے۔۔۔ تو۔۔۔زندگی معدوم ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی کے دکھ سکھ شمار یا جمع کئے جائیں۔۔۔ تو  پوری زندگی میں دکھوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے۔ انسان چاہے تو اسے خوف اور غم سے رخصت مل جاتی ہے۔۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے فرمایا:

                                                اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا

            مردانہ وار لڑ کر زندگی فتح کرنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جدو جہد اور کوشش کی حقیقت سے واقف ہو جائے۔ واقفیت یہ ہے کہ زندگی دراصل ایک روٹین ہے۔ ہم سانس لیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم سانس لے رہے ہیں۔

            پلک جھپکتی رہتی ہے مگر ہمارا خیال اس طرف نہیں جاتا کہ پلک جھپک رہی ہے۔ فکشن زندگی کی اکائیوں کو یکجا کر دیا جائے تو یہ شہادت فراہم ہوتی ہے کہ

                                                قانون فطرت میں کوئی جھول نہیں ہے۔ ہر چیز وقت کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ وقت جس طرح چابی بھر دیتا ہے ۔شے حرکت کرتی ہے۔وقت  ہاتھ اُٹھا لے تو چابی ختم ہو جاتی ہے۔۔ کھلونا بے حرکت ہو جاتا ہے۔ کل پرزے سب ہوتے ہیں مگر توانائی باقی نہیں رہتی۔یہ بات اللہ کے دوستوں کے مشاہدے میں ہے کہ جو کچھ موجود ہے۔۔۔ جو کچھ ہو رہا ہے۔۔۔جو  ہو چکا ہےیا ہونے والاہے سب اللہ کی طرف سے ہے۔ جب تک یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے۔ اس  وقت تک مرکزیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہتی ہے۔

جب یقین ٹوٹ جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے اور

وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ انتشار،

پریشانی، انتقام ہوتا ہے۔۔۔غم اور خوف ہوتا ہے۔

            میرا مشورہ ہے، آپ اپنی گزشتہ زندگی کا جائزہ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ یقیناً کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔۔۔ گھر میں ناشکری ایسا فعل ہے جس سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوتاہی سر زد نہ ہوئی ہو۔۔۔ لیکن گھر کے افراد خصوصاً بیگم صاحبہ کے طرز عمل پر بھی نگاہ ڈالیں۔

            آپ اپنا محاسبہ کریں گے تو حقیقت کا انکشاف ہوگا۔ انسان کے سکون کا سب سے بڑا دشمن فخر مباہات، غرور و تکبر ہے۔ جو عارضی اور انکساری کو کھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سے کسی کی حق تلفی نہ ہوئی ہو۔والدین کی خدمت نہ کرنا، ان کو ان کا مقام نہ دینا بھی حق تلفی ہے۔ میں مرغ کھاتا ہوں اور پڑوس میں چٹنی میسر نہ ہو ، یہ بھی حق تلفی ہے۔ جس دھرتی پر میں رہتا ہوں میرے اوپر اس کے حقوق بھی ہیں۔ انسان ذاتی مفاد میں جلد بازی سے کام لے کر ایسے فیصلے کرتا ہے جس کی بنیاد پر وہ لوگوں کی نفرتوں کا شکار بن جاتا ہے۔

            آپ کا یہ لکھنا کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا خود آپ کے لئے غور طلب ہے۔ اللہ کے لئے آپ نے کیا کیا ہے؟۔۔۔۔ آپ ہی کا کہنا ہے میں خیرات کی، لوگوں کی مدد کی۔ اس طرح نیکیوں کا برملا اظہار کس بات کی غمازی کرتا ہے۔۔۔ اس کے بارے میں سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے عزیز! اللہ تعالیٰ آپ کو پریشانی کے اس گرداب سے جلد نجات دیں۔ آپ قانون قدرت کا مطالعہ ضرور کریں۔

            کائنات زنجیر کی کڑیوں کی طرح ہے۔ آپس میں ملی ہوئی ہے اور جڑی ہوئی ہے۔ کڑیاں الگ الگ  ہو جائیں تو کائناتی سسٹم ٹوٹ جائے گا۔ یہاں سب کچھ ہونا اس لئے ضروری ہے کہ جزا اور سزا کا قانون زندہ ہے۔

            اولاد جس طرح ماں باپ کی جائیداد اور مال و اسباب کی وارث ہے اسی طرح خطاؤں اور غلطی کی پاداش میں مصیبتیں اور پریشانیاں اولاد کو ورثے سے منتقل ہوتی ہیں۔

            جہاں تک بغاوت اور سرکشی کا تعلق ہے، انسان تو ہمیشہ ہی قوانین قدرت سے متصادم رہا ہے۔ بڑے بڑے نمرود اور شداد ہو گزرے ہیں اور آج بھی زمین پر موجود ہیں لیکن جو بھی نظام قدرت سے ٹکرایا وہ پاش پاش ہو گیا۔

            آپ حوصلے سے کام لیں۔ اللہ نے آپ کو پہلے نوازا تھا، آئندہ بھی نوازے گا۔۔ اللہ تعالیٰ سے مایوس نہ ہوں۔

                                    لَاتَقْنَطُوْامِنْ رَّحْمتہِ اللہ               (سورہ الزمر)

                        ہمت مرداں مدد خدا۔۔۔

                        مردانہ وار آگے بڑھیئے۔

                        تجربات کو سامنے رکھیئے۔

                        جلد بازی میں فیصلہ نہ کیجیئے۔

            ان شاء اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔