Topics

سورہ فاتحہ میں انعام سے کیا مراد ہے


ہم پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں اور ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ سے درخواست بھی شامل ہے کہ ہمیں سیدھے رستے پر چلا جس پر تیرے  انعام یافتہ بندے چلے اور ایسے راستے پر نہ چلا جس پر تیرے مغضوب بندے چلے۔

            جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو کیا اس کے بعد بھی وہ اللہ کے ناپسندیدہ راستے پر چل سکتا ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہے کہ مجھے سیدھے راستے پر چلا۔۔۔

            وہ کونسی چیز ہے جسے انعام کہا گیا ہے کیونکہ اگر وسائل کی روشنی میں دیکھیں تو ایسے لوگ زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں جو اللہ کے احکام کی پیروی نہیں کرتے۔

            سارہ غیور                              (حیدر آباد)

 

جواب:                           روحانیت میں اس بات کی پوری طرح کوشش کی جاتی ہے کہ

                                    تصوف اور روحانیت کی راہوں میں چلنے والے مبتدی کے ذہن

                                    میں یہ بات واضح ہو جائے کہ زندگی کی بنیاد یا وسعت ایک طرز

 فکر کے اوپر قائم ہے۔اگر وہ طرزِ فکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ

تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطنت ہے اور وہ طرز فکر

جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام

رحمت ہے۔

            یعنی اس کائنات میں دو گروہ ہیں جن میں ایک گروہ انعام یافتہ ہیں ا ور دوسرا گروہ باغی اور نا شکرا ہے۔

            قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو مختصر الفاظ میں کہا جائے گا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں۔

            ایک وہ طرز ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ اور دوسری طرز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے نا پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارنے والے دوست اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہور ہیں۔

            عام زندگی میں جب ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہیں، سر کش ہیں۔۔۔ اور جن کی صفات میں شیطنت بھری ہوئی ہے وہ نعمتوں سے   معمور خزانوں کے مالک ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ جو شیطانی طرز سے دور ہیں نعمتوں سے محروم ہیں۔۔  یہ ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جس کو ہم دنیاوی زندگی کی آسائش کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ  زندگی کی آسائش سے متعلق وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر سے ہم آہنگ ہیں دونوں شریک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذریت شیطان بھی کھانا کھاتی ہے ، وہ بھی لباس پہنتی ہے، اس کے لئے بھی اچھے سے اچھا گھر موجود ہے اور جو لوگ ذریت ابلیس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے وہ بھی کھانا کھاتے ہیں ، گھر میں رہتے ہیں، لباس پہنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ جواہرات کے انبار سے ضروریات پورے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

            ایک آدمی کے پاس ایک کروڑ روپیہ موجود ہے وہ  وہی روٹی کھائے گا دوسرے آدمی کے پاس محل موجود ہے اور اس محل میں ۵۰ کمرے ہیں تو سونے کے لئے اسے ایک چارپائی کی جگہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔۔ نہ ہوگا کہ پچاس کمروں کا مالک کوئی بندہ سونے کے لئے لیٹے تو اس کا جسم اتنا دراز اور اتنا پھیل جائے کہ وہ دس چارپائیوں کی جگہ گھیر لے۔ سونے کے لئے اسے ایک ہی چارپائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علیٰ ہذااقیاس یہی حال پوری زندگی کے اعمال و حرکات کا ہے۔

            اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ دنیاوی طرز فکر میں ذریت ابلیس اور اس کے خلاف دوسرے لوگ مادی زندگی کے وسائل میں مشترک قدریں  رکھتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام کیا ہے جس انعام کے مستحق وہ لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے اور جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں۔ دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اٹھا لیتے ہیں۔ خوف و غم جس آدمی کی  زندگی سے نکل جاتا ہے تو خوشی اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ یہ وہ انعام ہے جو ہمیں ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا یہ وہی انعام ہے جس سے محروم لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں  ہم نے ان کے دلوں میں مہر لگا دی ہے اور ہم نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی  آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔

            ایسا بندہ جس کے دل پر کانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے وہ اس دنیا میں سوچتا بھی ہے سنتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مہر اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ وہ دنیاوی طور پر اندھا ہو گیا ہے یا اس کی عقل سلب ہوگئی ہے یا اس کے کانوں میں سیسہ ڈال ڈیا گیا ہے یا وہ بہرہ ہو گیا ہے۔ قلب پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سے ان صفات کو نکال لیا گیا ہے جن صفات سے آدمی اللہ تعالیٰ  کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی سماعت میں وہ صفت نکال لی گئی ہے جس کے ذریعے سے غیب کی آوازیں سنتا ہے فرشتوں سے ہمکلام ہوتا ہے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے  اگر ان آنکھوں پر پردہ نہ پڑا ہو تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضر ہو کر کھلی آنکھوں سے حضور کی ذات اقدس کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

            اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے قلب میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں کہ فرشتوں کی آواز سن سکیں۔ ان کی آنکھوں میں اتنی چمک نہیں ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کر سکیں۔ وہ سب لوگ ذریت ابلیس میں آتے ہیں۔ بات بہت زیادہ سخت ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ارکان اسلام کی ماہیت اور حقیقت میں اگر فکر کیا جائے تو ہر رکن اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق روحانی طرزوں ، روحانی صفات اور روحانی صلاحیتوں سے ہے۔

            اسلام میں بنیادی رکن حضور ﷺ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے کے بعد حضور کی رسالت کی شہادت دینا ہے لیکن دنیا کا کوئی قانون اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔ کلمہ شہادت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان شیطنت سے آزاد ہو کر فی الواقعی ایمان کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے۔ تو سیدنا حضور ﷺ  اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، وہ برملا حضور ﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے ۔ قانون شہادت یہ ہے کہ شہادت بغیر دیکھے معتبر نہیں ہوتی۔ مسلمان ہونے کے بعد حق باتوں پر یقین ضروری ہے، جو ایمان کی شرائط  میں داخل ہے ان میں پہلی بات غیب پر یقین ہے ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی۔ یقین متزلزل  رہتا ہے اس کے بعد ملائکہ کا تذکرہ آتا ہے پھر ان کتابوں کا تذکرہ آتا ہے جو حضور ﷺ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں پھر یوم آخر کا تذکرہ اتا ہے یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو پردوں کے پیچھے دیکھتی ہے۔ انسان کے اندر ایسے کان موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معانی اور مفہوم کو سمجھتے ہیں۔

            ایسی آنکھیں موجود ہیں جو آنکھیں زمان و مکان کی تمام حد بندیوں کو توڑ کر عرش پر ا للہ تعالیٰ کادیدار کرتی ہیں۔ ایسا قلب موجود  جو محسوس کرتا ہے۔ قلب اللہ کا گھر ہے اور  اس گھر میں مکین کو دیکھتا ہے۔

                                    روحانیت اور تصوف سالکین طریقت کو اسی طرف متوجہ کرنا ہے

                                    کہ آدمی ظاہری حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن

                                    حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے،  ملاوت

                                    ہے، نور ہے، روشنی ہے۔ جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسول

                                    اللہ ﷺ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے۔

            جہاں تک دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے مفروضہ حواس کا تعلق ہے ان حواس میں آدم، بکری اور کتا برابر کے شریک ہیں۔ کتا بھی عقل رکھتا ہے، آدمی بھی  عقل رکھتا ہے ۔ بعض حالات میں کتا انسان سے زیادہ عقلمند ہے۔

            دوسری بات جو زیرِ بحث آتی ہے وہ ساخت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت پر تخلیق کیا ہے وہ ساخت اس قسم کی ہے کہ اس ساخت کی وجہ سے وہ عقل سے زیادہ سے زیادہ کام لے سکتا ہے اگر بلی کی ساخت انسانوں کی طرح ہوتی اور جس طرح انسان دو پیروں پر چلتا ہے اسی طرح بلی بھی پیروں پر چلتی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بلی کا ر ڈرائیو نہ کر سکتی۔ دنیاوی عقل کا تعلق جہاں تک ہے اللہ کی سب مخلوق عقل رکھتی ہے جہاں تک عقل میں کمی بیشی کا تعلق ہے۔ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی بھی سب عقل مند نہیں ہوتے۔ ہزاروں لاکھوں میں چند دانشور نکلتے ہیں اور اس دانشوری کے اندر غوطہ لگا کر جب کوئی گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں بھی بے عقلی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

            انسان روزانہ ترقی کے نعرے لگاتا ہے روزانہ ایجادات کے لئے نئے فارمولے زیرِ بحث آتے ہیں کچھ دن ان فارمولوں کا چرچا رہتا ہے پھر خود ہی ان فارمولوں کی نفی ہو جاتی ہے ۔ آج کا دانشور جو کہتا ہے آنے والا کل کا دانشور اسی بات کی نفی کر دیتا ہے جبکہ عقل سلیم یہ بات جانتی ہے کہ حقیقت میں تغیر و تبدل اور تعطل واقع نہیں ہوتا۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل رہتی ہے اربوں کھربوں سال سے چاند چاند ہے، سورج سورج ہے، زمین زمین ہے۔ اربوں کھربوں سال چاند کی گردش کے جو فارمولے قدرت نے بنا دیئے ہیں ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوگا۔

            اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس بات میں تغیر ، تبدل ، تعطل واقع ہو سکتا ہے وہ حقیقی نہیں ہے اس کی بنیاد فکشن(Fiction)  اور مفروضہ حواس پر ہے تصوف اور روحانیت مفروضہ یا فکشن حواس کی نفی کر کے آدمی کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

 

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔