Topics

علم سیکھو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔


 سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے

                                    علم سیکھو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔

            تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں اسلام کی روشنی چین میں نہیں پھیلی تھی۔ حصول علم کے لئے چین جانے کے تذکرہ میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔

 

جواب:   علم سے مراد تفکر اور ریسرچ (Research)              ہے۔ قرآن پاک نے غور و فکر اور ریسرچ (تجسس و تحقیق) کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا ہے چناچہ کائنات کے انتظام و انصرام کے لئے جو قوانین جاری و ساری ہیں ان کو جاننا بھی ہر ذی شعور مسلمان کا فرض ہے۔ اس لئے کہ یہ سب اللہ کی نشانیوں میں تدبر اور تفکر ہے اور اللہ کی نشانیوں میں تفکر اور تدبر کے نتیجے میں سائنسی حقائق کا مشاہدہ صاحب تفکر کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

            سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے

                        ٭        حکمت سیکھو جہاں سے بھی ملے

                        ٭        حکمت مومن کی کھوئی ہوئی پونجی ہے، جہاں کہیں اس کو  پائے اُٹھا لے

                        ٭        ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔

                        ٭        طلب علم بہترین عبادت ہے۔

                        ٭        علم اسلام کی حیات اور اسلام کا ستون ہے۔

                        ٭        ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔

اس لئے علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو۔

                        ٭        جو شخص دنیاوی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے

                                    کہ علم حاصل کرے، جو شخص اخروی متاع حاصل کرنا

                                    چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ علم حاصل کرے۔

            رب العالمین کے فرستادہ رحمتہ للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور دعوت علم کا اثر یہ ہوا کہ امتی پوری توجہ اور جذب و شوق کے ساتھ علم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔ جہاں جہاں سے بھی ان کو علم حاصل ہو سکتا تھا انہوں نے حاصل کیا اور علم کی فضیلت نے انہیں علوم و فنون میں کرۂ ارض پر قائد اور راہنما بنا دیا۔مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد اوہام پرستی، قیاس آرائی اور مفروضہ باتوں پر نہیں رکھی بلکہ ہر ہر میدان میں تجربے اور مشاہدے کی بنا ء پر نئی نئی سائنسی تحقیقات کیں۔ مسلمان طبیب، مسلمان ہیئت دان، جابر، فارابی،زکریا، ابن سینا، خوارزمی، عمر خیام، نصیرالدین طوسی، ابو الحسن ، ابن محمد قزوینی، رازی، ابو القاسم البیرونی، ابن خلدون، امام غزالی وغیرہ نے اپنی محنت اور تحقیق سے سائنسی علوم میں ایک غیر معمولی اضافہ کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپ توہمات میں ڈوبا ہوا تھا۔

                        مسلمان سائنسدانوں نے قطب نما، بارود اور کاغذ ایجاد کیا۔یہ مسلمان سائنسدان ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے فضا میں پرواز کی کوشش کی۔یہی لوگ تھے جنہوں نے پتھر سے شیشہ بنایا۔دور بین اور پن چکی ایجاد کی۔اندھوں کے پڑھنے کے لئے ابھرے ہوئے حروف Braille               ایجاد کئے۔         الجبرا کا وجود بھی مسلمانوں کے مرہونِ منت ہے۔انہوں نے جیومیٹری (Geometry)             مثلثیات (Trigonometry)                     کے یونانی علوم میں بیش بہا اضافہ کیا۔ستاروں کی فہرستیں اور نقشے تیار کئے۔سطح زمین کے ایک درجے کو ناپ کر تمام کرۂ ارض کا محیط دریافت کیا۔مختلف قسم کی آبی شمسی گھڑیاں بنائیں۔پنڈولم ایجاد کیا جس سے وقت ناپا جا سکے۔فن طباعت ایجاد کیا۔۔۔اورفن طب (Medicine)                                    میں انقلاب برپا کیا۔

            حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ تعلیمات نے عربوں کے دلوں میں علم کی وقعت اتنی جاگزیں کر دی تھی کہ وہ علم وحکمت کو اپنی میراث سمجھتے تھے۔ جہاں کہیں سے بھی ان کو حکمت و دانش ملتی تھی اس کو حاصل کرتے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں مسلم ماہرین علم نے بنی نوع انسان کے علم میں نہایت اہم اور جدید اضافے کئے۔

                        ان نامور مصنفین کی تصنیفات پڑھ کر موجودہ زمانے کا ہر تعلیم یافتہ شخص ان کتابوں کی ایک امتیازی خصوصیت نوٹ کرتا ہے۔ وہ خصوصیت  یہ ہے کہ ان میں کہیں بھی اسلامی عقائد کے ساتھ تضاداور مخالفت نہیں پائی جاتی۔ کسی جگہ بھی اسلام اور سائنس کا ٹکراونہیں ہوتا۔

            ان نامور مسلم سائنسدانوں کے علم و فضیلت کی روشنی جب چہار سو پھیلی تو ان روشنیوں سے مسلم ممالک کے باہر دور دراز ممالک میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ عرب سائنسدانوں کے اثرات پیرس ، آسفورڈ، اٹلی اور مغربی یورپ تک جا پہنچے۔

            آج کا غیر متعصب دانشور جب تخلیق کائنات اور تخلیقی اسرار و رموز پر غور کرتا ہے اور اس سوچ بچار اور تفکر کے ڈانڈے قرآن پاک سے ملاتا ہے تو  یقینی اور حقیقی ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ سائنس  انسان کی پیدائشی خاصیت ہے۔ حقیقت میں دانشور جب سائنس کے صحیح مقام کا تعین کرتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ سائنس دراصل تخلیق و تسخیر اور موت و حیات کی حقیقت اور اس کے تمام رازوں تک پہنچنے کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ہم نے آدم کو اپنی نیابت عطا کی اور اس کو سارے نام سکھا دیئے۔ نیابت سے مراد اللہ کے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال  ہے۔ خصوصی  اختیارات کے استعمال کا سوال اسی وقت زیرِ بحث آتا ہے کہ جب اختیارات استعمال  کرنے کے قواعد و ضوابط اور قوانین سے واقفیت حاصل ہو۔ اختیارات کے قوانین کے استعمال سے باخبر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ اس سے مراد یہی ہے کہ آدم کو تسخیر کائنات کی سائنس سکھا دی گئی تاکہ وہ اس خصوصی علم کے ذریعے کائنات پر اپنا تصرف قائم رکھ سکے۔

            علمی اعتبار سے سائنس کا علم فطرت اور کائنات کا علم ہے۔ سائنس کا مقصد ہی یہی ہے کہ کائنات کے افراد اور افراد کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق و ترکیب اور مقداروں کا پتہ چلے جو ایک ضابطے کے ساتھ متحرک ہیں اور یہ حرکت ہی کسی شے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ علمی طور سے سائنس کا کام کائنات کی ساری قوتوں کو فتح کرنا، زمین اور آسمان کے خزانوں سے استفادہ کرنا ہے۔

             اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں انسانوں کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں۔ جب ہم سائنسی اعتبار سے لوہے کے اندر انسانی فوائد سے متعلق خصوصیات پر تفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آج کی سائنسی ایجاد میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا وجود موجود ہے۔

            ریل کی پٹری میں، ہوائی جہاز وں میں، لاسلکی نظام میں، ہر ہر سائنسی ایجاد میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا وجود اپنی اہمیت کا اظہار کر رہا ہے اور اللہ کے ارشاد کے مطابق لوہے سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔

             ہم  جب آدم سے اب تک صعوری زاویوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا ہر عمل ایک سائنس ہے اور یہ سائنسی عمل ہی انسان کی ساری ضروریات کا کفیل ہے۔ سارے انسانی یپشے،  صنعتیں ، دستکاری، فن تعمیر، مشینیں سب ایک سائنسی عمل (تحقیق و ترقی) کا نتیجہ ہیں۔

            قرآن پاک کے مطالعے سے ہمیں اس بات کا بھی علم ہو جاتا ہے کہ عملی سائنس ہمیں مختلف اشیاء کے ذریعے پہنچی ہے۔ مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے زراعت، حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعے کشتی سازی، حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعے لوہے سے متعلق صنعت و حرفت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے طب جیسے سائنسی علوم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے لاسلکی نظام ( Wireless system)                            نوع انسانی کو پہنچا ہے۔

            ایک وقت تھا کہ یورپ علم کے میدان میں تہی دست تھا۔ پورے یورپ میں جہالت اور اندھیروں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ مسلمان چونکہ اپنے نبی آخر الزمان ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اس لئے وہ من حیث القوم ایک ممتاز قوم تھی اور جیسے جیسے وہ نبی آخر الزمان ﷺ کی تعلیمات ، فکر و تدبر اور تحقیق و ترقی  (Research and Development ) کے علوم سے دور ہوتا گیا اسی مناسبت سے اس کی زندگی انفرادی طور پر اور من حیث القوم اور تاریکی میں ڈوبتی چلی گئی اور جس قوم نے علم کا حصول اور سائنسی ترقی کو اپنے لئے لازم قرار دے لیا ، وہ بلند اور سرفراز ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ تعالیٰ اس کی حالت تبدیل نہیں کرتا۔

            ضرورت ہے کہ ہم ناخلف اور نا سعید اولاد کے  دائرے سے نکل کر خلف اور سعادت مند اولاد بنیں اور اپنے اسلاف کے ورثے کو حاصل کریں تاکہ تاریکی کے گہرے غاروں سے ہمیں نجات مل جائے۔ سید نا حضور علیہ  الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات گرامی کا مطلب یہی ہے کہ مسلمان کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں تفکر کریں اور تحقیق و تلاش کے شعبہ میں ترقی کر کے باشعور قوم بن جائیں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔