Topics
اس دنیا میں ہر انسان
زندگی کو بہترین بنانے کے لئے ہر طرح سے کوششیں اور جدوجہد کرتا ہے مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر کسی کو ہر طرح کی دنیاوی
آسائشیں میسر آجائیں تب بھی وہ بے اطمینانی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا
ہے جو کہ عموماً بے اختیاری ہوتا ہے۔ ہم اس بے سکونی ، بے اطمینانی ، پریشان خیالی
اور عدم تحفظ کی کیفیت کو کس طرح ختم کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اوراس
سلسلے میں کیا مذہب انسان کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ مذہب کے پیرو کاروں کی اکثریت
کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بے سکونی اور عدم
اطمینان کا اتنا ہی احساس انہیں بھی رہتا ہے جتنا دوسرے لوگوں کو ہوتا ہے۔
ندا
فراز (کراچی)
کائنات
میں بے شمار نوعیں ہیں۔ہر نوع اور نوع کا ہر فرد نوعی اور انفرادی حیثیت سے خیالات
کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں اور یہ مسلسل اور پیہم ربط ہی افراد کائنات کے درمیان تعارف
کا سبب ۔ خیالات کی یہ لہریں دراصل انفرادی اور اجتماعی اور اطلاعات ہیں جو ہر
لمحہ اور ہر آن کائنات کے افراد کو زندگی سے قریب
کرتی ہیں۔
حقیقت یہ
ہے کہ ہماری پوری زندگی خیالات کے دوش پر سفر کر رہی ہے اور خیالات کیکارفرمائی
یقین اور شک پر قائم ہے۔ یہی نقطۂ آغاز مذہب کی بنیاد ہے۔
حقیقت یہ
ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو
چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔
آدمی جس
معاشرے میں تربیت پاکر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن
اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے چناچہ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصل
کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ محض فریب ہے اس کی بڑی وجہ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ آدمی جو
کچھ خود کو ظاہر کرتا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے۔
اس قسم
کی زندگی گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسی مشکلات جن کا حل اس کے
پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا اور بے
نتیجہ ثابت ہوگا۔ بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی سمجھنے لگتا ہے کہ
اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے اور اگر تلف نہیں ہو رہی ہے تو سخت خطرے میں ہے اور یہ
سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔
جب آدمی
کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے
یا جسے وہ پیش کر رہا ہے تو جس پر اس کا عمل ہے اس عمل سے وہ نتائج مرتب کرنا
چاہتا ہے جو اس کے حسبِ خواہ ہوں لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردو
بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت
ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اُٹھانے میں
رُکاوٹ بنتا ہے۔
آدمی کے
دماغ کی ساخت دراصل اس کے اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے
ٹوٹ پھوٹ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ
ہونا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو جس
کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے۔ جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہوگی اسی
قدر آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی اور جس مناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی
ناکامیوں میں بسر ہوگی۔
ارادہ یا
یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا
یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں
کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں حاصل کر کے مظہر بنتا ہے۔
مذہب
ہمیں یقین کے اس پیٹرن (Pattern) میں داخل
کر دیتا ہے جہاں شکوک و شہبات اور وسوسے ختم ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنی باطنی نگاہ
سے غیب کی دنیا اور غیب کی دنیا میں موجود چلتے پھرتے فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے۔ غیب
کی دنیا کے مشاہدات سے بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک ایسا تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ
وہ خالق کی صفات کو اپنے اندر محیط دیکھتا ہے۔ روحانی نقطۂ نگاہ سے اگر کسی بندے
کے اندر باطنی نگاہ متحرک نہیں ہوتی وہ ایمان کے دائرہ میں داخل نہیں ہوتا۔ جب
کوئی بندہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی طرزِ فکر میں سے تخریب اور
شیطنیت نکل جاتی ہے اور اگر ابندے کے اوپر یقین (غیب کی دنیا) منکشف نہیں ہے تو
ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنیت میں گرفتار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی
یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات اور لامتناہی آرام و آسائش کے باوجود ہر شخص بے
سکون، پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔
سائنس
چونکہ مادہ (Matter) پر یقین
رکھتی ہے اور مادہ عارضی اور فکشن ہے اس لئے سائنس کی ہر ترقی، ہر ایجاد اور
آرام و آسائش کے تمام وسائل عارضی اور فنا ہو جانے والے ہیں۔
جس شے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہو سکتی۔
مذہب کے
وہ پیرو کا ریا علما جو عبادات کی رسوم کی حد تک پابندی کرتے ہیں اور ظاہری اعمال
کو ہی اہم سمجھتے ہیں وہ ایمان یعنی غیب
کی دنیا کے مشاہدات سے محروم رہتے ہیں۔۔۔ نتیجتاً ان کی زندگی بھی بے سکونی، بے
اطمینانی اور عدم تحفظ سے دو چار رہتی ہے۔
مذہب اور
لامذہبیت یہی بنیادی فرق ہے کہ لامذہبیت انسان کے اندر شکوک و شہبات ، وسوسے اور
غیر یقینی احساست کو جنم دیتی ہے جبکہ مذہب تمام احساست ، خیالات، تصورات اور
زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذات اور مستقل ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے
جس کی وجہ سے انسان پر سے بے سکونی، بے اطمینانی اور عدم تحفظ کے بادل چھٹ جاتے
ہیں اور وہ پُر سکون زندگی گزارتا ہے ، خوش رہتا ہے۔ اس کے خوش رہنے سے ماحول میں
بھی سکون اور مسرت کی لہریں دور کرتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔