Topics

انسان کی حیاتی ساخت

             نہ چاہتے ہوئے بھی میں محبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔ ایک صاحبہ میرے خوابوں میں آنے لگی ہیں اور خواب اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ میں دن بھر اس سے نجات نہیں پا سکتا اور اسی کے خیال میں محو رہتا ہوں۔ کوئی ایسا عمل بتلایئے کہ میں ان خیالات سے چھٹکارا حاصل کر لوں۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو ساتھ میں اس بات کی توجیہہ بھی کیجیئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

            نسیم حیدر                     (اٹک)


            جواب:  انسان کی حیاتی ساخت تین گراف پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلا گراف لامتناہیت سے براہ راست ارتباط رکھتا ہے۔ اس کے بعد گراف نمبر ۲ کو قریب  ترین الفاظ میں لاشعور کہتے ہیں اور اس سے تیسرا گراف پیوست ہوتا ہے جس کو عرف عام میں شعور کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی وہ اسکرین ہے جہاں ہر چیز، ہر حرکت ، منظر ، ہر خیال، ہر ایک تجربہ یہاں تک کہ ہر بات جو حیات کے اجزاء پر مشتعمل ہو ٹیپ (Tape) ہوتی ہے۔ اس دور کی اصطلاحات میں اسے ریکارڈ کہہ سکتے ہیں۔ مظاہرہ میں صرف وہ چیزیں نظر آتی ہیں ، محسوس ہوتی ہیں اور چکھی جاتی ہیں جو اس گراف میں ریکارڈ ہوتی ہیں۔ اس گراف کا پسِ منظر ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو اس ذخیرہ میں سے کوئی چیز گراف کی اسکرین پر آجاتی ہے۔ عام طور سے ہم اس عمل کے بارے میں کہتے ہیں ہمیں یاد آگیا ہے، فلاں کام اس طرح ہوا تھا، فلاں بات اس طرح ہوئی تھی۔ اس گراف میں دو سوئچ ہوتے ہیں ایک سوئچ تو گراف نمبر ۲ کے دباؤ سے آن (On) ہو جاتا ہے۔ اس کے ON – OFF  ہونے کا تعلق انسان کے اپنے ارادے سے قطعاً نہیں ہوتا۔ دوسرا سوئچ انسان کے اپنے ارادے سے ON ہوتا ہے۔

            آپ کی موجودہ ذہنی کیفیت یہ ہے کہ کسی وقت گراف نمبر ۳ کی قوت کم ہو جاتی ہے جس سے گراف نمبر ۲ کا پریشر بڑھ جاتا ہے۔ غیر ارادی سوئچ ON  ہو جاتا ہے اور اضطراری نقوش اسکرین پر آجاتے ہیں۔ سونے کی حالت میں وہی خواب بن جاتے اور جاگتے میں خیال گراف نمبر ۳ کی قوت نمک کی مقدار ڈیڑھ گنا بڑھانے سے بڑھ جائے گی، وہ گراف نمبر ۲ کے پریشر سے مغلوب نہیں ہوگا اور آپ کی تکلیف دور ہو جائے گی۔


 

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔