Topics
ٹیلی پیتھی کے سلسلہ میں آپ نے کیالات کے دو رخ متعین کئے
ہیں، ایک اعلیٰ دوسرا اسفل۔ اعلیٰ خیال کو آپ نے فکر سلیم کا نام دیا ہے اور اسفل
خیال کو اپ نے وسوسوں کی آما جگاہ بتایا ہے۔۔۔ مذہبی نقطۂ نظر سے اسلامی اصولوں کے
مطابق زندگی گزارنے کو فکر سلیم کہا جاتا ہے جبکہ اسلام میں ٹیلی پیتھی کا کہیں
تذکرہ نہیں ہے۔ یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کہ آپ نے اعلیٰ اور اسفل خیالات کی
اصطلاح قائم کر کے اسلام میں ٹیلی پیتھی کی پیوندکاری کی ہے۔ تیلی پیتھی دراصل ان
علوم میں سے ایک علم ہے جو یورپ کے سائنس دانوں نے ماورائی علم سے اخذ کیا ہے۔ یہ
صحیح ہے کہٹیلی پیتھی ایک ایسا علم بن گیا ہے جس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے والا فرد فکر سلیم بھی
رکھتا ہو یعنی وہ مسلمان ہو۔ کیا آپ کسی ایک ایسے واقعہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو
ہمارے اسلاف کے ساتھ پیش ایا ہو اور وہ ٹیلی
پیتھی کے علم سے مطابقت رکھتا ہو۔۔۔
آپ سے
نہایت درد مندانہ درخواست ہے کہ آپ اس علم کو اس کی اصل شکل و صورت اور اس کی
حقیقی ہیئت میں پیش کریں تاکہ اسلام ٹیلی پیتھی میں امتیاز باقی رہے۔
جواب: جہاں تک فکر سلیم کا تعلق ہے اس کو کسی ایک قوم یا کسی
ایک گروہ کی میراث قرار نہیں دیا جا سکتا۔
فکر
سلیم دراصل انسانی اقدار کا دوسرا نام ہے۔ اگر کسی گیر مسلم میں
انسانی
قدریں موجود ہیں تو اس کو بہرحال انسان
کہا جائے گا اور اگر
کسی
مسلمان میں انسانی قدریں موجود نہیں ہیں وہ ہرگز انسان کہلانے
کا
مستحق نہیں ہے۔
اللہ
تعالیٰ پارہ ۶، رکوع ۱۳، سورۃ المائدہ کی آیت ۶۹ میں ارشاد فرماتے ہیں۔
البتہ
جو مسلمان ہیں اور جو یہود ہیں اور صائبین اور نصاریٰ، جو کوئی
ایمان
لائے اللہ پر اور یومِ آکرت پر اور عمل کرے نیک ، نہ ان پر
ڈر
ہے نہ وہ غم کھائیں۔
آیت
مقدسہ میں اللہ عالیٰ نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ کسی قوم یا کسی فرد کا
نیک عمل ضائع نہیں کیا جاتا۔ نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتے ہیں، شرط یہ ہے کہ اس کا عمل خالصتاً اللہ
کے لئے ہو۔
ایسا
عمل جو اللہ کے لئے کیا جائے فکر سلیم کے دائرے میں آتا ہے۔
ہم نے
فکر سلیم کو ایک ایسی طرز فکر بتایا جو انسا کو اس کی روح سے قریب کرتی ہے۔ روح سے
قریب ہونا اور روح کا عرفان حاصل ہونا دراصل انسانیت ہے ۔ تمام آسمانی صحائف نوع
انسانی کو اسی طرزِ فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
اس سوال
کا جواب کہ اسلام میں تیلی پیتھی کا وجود نہیں ہے، یہ ہے کہ تیلی پیتھی دراصل نام
ہی ایسے علم کا ہے جس کے ذریعے ایک بندہ اللہ کی مخلوق کے دلوں میں اپنے خیالات
اور طرزِ فکر منتقل کرتا ہے۔ تمام انبیاء کرام السلام کا مشن یہ رہا ہے کہ وہ اپنی
اس طرز فکر سے جو اللہ کی طرف سے بطور خاص
ودیعت ہوئی ہے اللہ کی مخلوق کو منتقل کر دیں اور ان کی شیطنیت سے بچا کر،
باغیانہ طرزِ زندگی سے نجات دلائیں۔ اس
بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ترغیب کے بجائے اس علم کو ٹیلی پیتھی کہہ دیا جائے،
جس طرح خدا کو انگریزی میں God یا ہندی میں بھگوان کہا جاتا ہے۔
آپ نے یہ بھی لکھا ہے کسی ایک وقاعہ کی نشاندہی
کر دی جائے جو اسلاف کے ساتھ پیش آیا ہو اور ٹیلی پیتھی سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس کے
جواب میں عرض ہے۔۔۔
تاجدار
دو عالم سرورِ کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو
اونٹ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کے مالک سے ارشاد فرمایا کہ یہ اونٹ تیری
شکایت کر رہا ہے کہ تو اس پر بوجھ تو پورا لاد تا ہے لیکن اس کی خوراک کا انتظام
پورا نہیں کرتا۔
اسی طرح تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کا یہ واقعہ سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے کہ ایران کی ایک جنگ کے دوران سپہ
سالار اسلام حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ اپنے
لشکر کو لے کر دشمن کے بہت قریب پہنچ گئے اور محاصرہ کر لیا۔ اس کے بعد دشمن نے
امداد حاصل کر لی اور اس کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ جمعہ
کا خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے اچانک فرمایا۔” اے لوگو! میں نے
فریقین کو دیکھا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے دونوں لشکروں کا حال بیان کیا۔ پھر پکار
کر فرمایا” یا ساریہ! الجبل۔۔۔الجبل“ ( اے
ساریہ! پہاڑ کی طرف چلے جاؤ)۔ تاریخ شاہد ہے کہ ساریہ رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور شکست سے محفوظ و مامون
رہے۔
اس ضمن
میں انبیاء کرام علیہم السلام، اولیا اللہ اور جینیئس لوگوں کے سینکڑوں واقعات
ایسے ہیں جو مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔