Spiritual Healing
آدمی زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے، مثلاً ایک سیکنڈ کا کوئی فریکشن آدمی کی زندگی خواہ سو(100) برس کی کیوں نہ ہو لیکن وہ انہیں لمحوں میں تقسیم ہوتی رہتی ہے ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ذہن میں وقت کے یہ ٹکڑے جوڑتا ہے اور انہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے ۔ انہی ٹکڑوں کے گرداب میں جن کو ہم سوچنا یا فکر کرنا کہتے ہیں ، ہم یا تو ایک ٹکڑے سے آگے دوسرے ٹکڑے پر آ جاتےہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں۔
اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ آدمی ابھی سوچتا ہے کہ میں کھانا کھاؤ ں گا لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے اس لئے وہ ترک کر دیتا ہے ۔ کب تک وہ اس ترک پر قائم رہے گا اس کے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم ۔ علیٰ ھٰذہ القیاس بے شمار افکار ہی اس کی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں ، جو اسے ناکام یا کامیاب بناتے ہیں ۔ ابھی وہ ایک ارادہ کرتا ہے پھراسے ترک کر دیتا ہے ، چاہے منٹوں میں ترک کرتا ہے، چند گھنٹوں میں ترک کرتا ہے یا مہینوں اور سالوں میں ترک کرتا ہے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ ترک آدمی کی زندگی کا جزو ِ اعظم ہے کیوں کہ وہ بالطبع آرام طلب واقع ہوا ہے ۔ بہت سی باتیں ہیں جن کو آدمی دُشواری ، مشکل ، بیماری، بیزاری ، بے عملی ، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔ ان کیفیتوں کے بالمقابل ایک ایسی کیفیت ہے جس کا نام وہ سکون رکھتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کیفیتیں حقیقی ہیں۔ درحقیقت ان میں میں سے زیادہ تر کیفیات مفروضات پر مبنی ہیں۔
انسان کے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ ہر
آسانی کی طرف دوڑتا ہے اور ہر محنت سے جی چُراتا ہے ظاہر ہے کہ یہ دو سمتیں
ہیں اور ان سمتوں میں آدمی ہمیشہ افکار کے ذریعے سفر کرتا ہے ۔ اس کی ہر حرکت کا
منبع ان سمتوں میں سے ایک سمت ہے۔ ہو تا
یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی پھر اس کی تنظیم کی یہاں تک کے وہ مکمل ہو گئی اس کی سمت
بھی صحیح تھی لیکن صرف دس قدم
چلنے کے بعد ہمارے ذہن میں تبدیلی واقع ہوئی، تبدیلی واقع ہوتے ہی افکار
کا رُخ بدل گیا ۔ نتیجے میں سمت
بھی تبدیل ہو گئی چنانچہ ہم جس منزل کی طرف رواں دواں تھے وہ غیب میں چلی گئی۔ ہمارے پاس باقی
کیا رہا ؟ ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم اُٹھانا ۔ واضح رہے کہ یہ تذکرہ یقین اور شک کے
درمیان راہوں کا تھا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان کی بناء وہم اور یقین پر ہے۔ مذہب کی اصطلاح میں اس ہی
کو شک اور ایمان کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ
دماغ میں شک کو جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں اور ذہن میں یقین کو پختہ
کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے " لاریب" ہے یہ کتاب اور اس کو ہدایت دیتی ہےجس کا یقین غیب
پر ہےجس شک کو اللہ نے ممنوع قرار دیا
ہے یہ وہ ہی شک ہے جس سے آدم علیہ السلام
کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بالآخر شیطان نے بہکا کر یہ شک آدم ؑکے دماغ میں ڈالدیا جس کے سبب آدم ؑکو جنت سے نکالا
گیا۔ اسی مقام سے آدم ؑکے دماغ میں دو سمتوں کا تعین ہوا۔ یعنی شک اور یقین۔
بیان کردہ حقائق کی روشنی میں انسان کے دماغ کا محور یقین اور شک پر ہے یہی وہ شک اور یقین ہے جو دماغی خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر شک کی زیادتی ہوگی اس ہی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوگی۔ یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہ ہی وہ دماغی
خلیے ہیں جن کے
زیرِ اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور
اعصاب کی تحریکات ہی انسانی زندگی ہے۔
کسی چیز پر انسان کا یقین کرنا اتناہی
مشکل ہے جتنا فریب کو جھٹلانا ۔مثال اس کی یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے وہ خود کو اس
کے خلاف پیش کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی
کمزوریاں چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ
خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود
نہیں ہیں۔ مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ وہ جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوا ہے وہ
معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے، اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا تجزیہ
کر سکے۔ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصل کر
لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ آدمی جو کچھ خود
کو ظاہر کرتا ہے ایسا ہے نہیںبلکہ اس کے برعکس ہے۔
اس قسم کی زندگی گذارنے میں اسے بہت مشکلات پیش آتی ہیں ۔ ایسی مشکلات جن کا حل آدمی کے پاس نہیں ہے ۔ اس زندگی میں قدم قدم پر اُسے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہوگا۔ بعض اوقات آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی پوری زندگی تلف ہو رہی ہے۔اگر تلف نہیں بھی ہورہی ہے تو سخت خطرہ میں ہے۔ یہ سب ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں شک کی بنا ء پر بہت تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔ دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردو بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، عمل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے اور اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے۔
آدمی کا دماغ دراصل اس کے اختیار میں ہے وہ خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو یقین کی طاقت سے کم اور زیادہ کر سکتا ہے۔ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ میں کمی سے اعصابی نقصان کے امکاناتبہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔
آدمی بھی ایک جانور ہے ۔ کسی طرح سے اس نے آگ کا استعمال سیکھ لیا اور آگ کے استعمال سے بالتدریج علم و ہنر کی بینادیں پڑیں۔ کتاب " رنگ اور روشنی سے علاج ' میں آدمی کے دو پیروں پر چلنے کا وصف بیان کیا گیاہے۔ ہم نے اُس کتاب میں یہ تشریح کی ہے کہ حیوان اور انسان مین روشنی کی تقسیم کا عمل کن بینادوں پر قائم ہے اور تقسیم کے اس عمل سے ہی آدمی اور حیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے۔
تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جب آدمی چند فی ہزار سے زیادہ صحت مند
موجود رہا ہو، دراصل ہونا یہ چاہیئے تھا کہ وہ زیادہ سےزیادہ روشنی کی قسمیں اور
روشنیوں کا طرز ِ عمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی،یہ چیز
ہمیشہ پردہ میں رہی ۔آدمی نے اس پردے میں جھانکنے کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یا تو
اس کے سامنے روشنیوں کا پردہ موجود ہی نہیں تھا، یا اس نے روشنیوں کے پردے کی طرف
توجہ نہیں کی۔اس نے وہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف خیال ہی نہیں کیا جو روشنیوں کے
خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آدمی یہ طرز عمل اختیار کرتا تو اس کے دماغی خلیوں
کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی ۔ اس
حالت میں وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف
قدم اٹھاتا، فضول عقائد اور توہم میں مبتلا نہ ہوتا۔ شکوک اسے اتنا پریشان
نہ کرتے جتنا کہ اب پریشان کئے ہوئے ہیں اور اس کی تحریکات میں جو عملی رکاوٹیں واقع ہوتی ہیں وہ کم سے کم ہوتیں۔ لیکن
ایسا نہیں ہوا، اس نے روشنیوں کی قسمیں معلوم نہیں کیں نہ ہی روشنیوں کی طبیعت کا
حال معلوم کرنے کی کوشش کی، وہ یہ بھی نہیں جانتا
کہ روشنیاں بھی طبیعت اور ماہیت رکھتی ہیں اور روشنیوں میں رجحانات بھی
موجود ہیں ۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ روشنیاں
ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفا ظت کرتی ہیں۔ وہ تو صرف مٹی کے
پتلے سے واقف ہے۔ اس پتلے سے جس کے اندر
اپنی کوئی زندگی موجود نہیں ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ و ہ سڑی
ہوئی مٹی سے بنایا گیا ہے اور دوسری جگہ یہ بھی ارشاد ہے کہ وہ مٹی بجنی ہے یعنی
" خلاء" ہے۔
اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے:۔
"انسان
نا قابل تذکرہ شے تھا ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈالدی پس یہ بولتا سنتا، سمجھتا
اور محسوس کرتا انسان بن گیا۔"
روح کی
تعریف یہ ہے کہ وہ امرِ رب ہے۔ امر کی بہت مختصر تشریح یہ ہے ۔ اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی بات
کاتو کہتا ہے " ہو " اور وہ ہو
جاتی ہےیعنی انسان روح ہے اور روح امرِ رب ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس
ارشاد سے نا واقفیت وہم اور شک کو بڑھاتی ہے۔نتیجہ میں ایمان اور یقین ٹوٹ جاتے
ہیں۔
قرآن پاک نے قوم کو
ایک فرد کی حیثیت دی ہے چنانچہ اس کے ساتھ
بھی یہی عمل ہوتا ہے جو فرد کے ساتھ
ہوتا ہے۔ قوم میں اگر یقین کی نسبت شک زیادہ ہو جائے تو یہ عمل دورُخ
اختیار کر لیتا ہے۔ جب اس کا رخ عروج کی طرف ہوتا ہے تو آفات ِ سماوی کے آنے کا احتمال ہوتا ہے اور جب نزول کی طرف
ہوتا ہے تو آفات ارضی آتی ہیں۔
جب آفات آسمان سے نازل ہوتی ہیں تو بکھر
کر پوری قوم کے ذہن اور اعصاب کو متا ثر کرتی ہیں۔ ان سے بچنے کی سوائے اس کے کوئی ترکیب نہیں کہ قوم کے یقین
کی راہ ایک ہو۔ الگ الگ نہ ہو۔ یہی انبیاء کا سبق ہے۔ جب قوم گروہوں میں منتشر ہو
جاتی ہے اور گروہوں کایقین مختلف ہو تا ہے
تو شک زمین کی سطح پر پھیل جاتا ہے۔ اس انتشار
سے آفاتِ ارضی حرکت میں آجاتی ہیں اور پھیل جاتی ہیں۔ چنانچہ سیلاب ،زلزلے،
وبائیں وغیرہ ظہور میں آتی ہیں۔ کبھی کبھی خانہ جنگی بھی ہو تی ہیں جس سے قوم
اور افراد کا اعصابی نظام تباہ ہوجاتا ہے جو طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا موجب
ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اگر امراض اوران کی بیماریوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد سینکڑوں سے
تجاوزکرجاتی ہے ۔ ان امراض کی نوعیت اوروجوھات بھی الگ الگ ہیں ۔ روحانی نظریہ
علاج کے مطابق امراض کے دورخ ہیں ۔ ایک جسمانی اوردوسراذہنی یا روحانی ۔ جسمانی
نظام میں کسی بے اعتدالی ، کیمیائی یا طبعی تبدیلی کا نام مرض ہے ۔
روحانی نطریہ علاج میں ہرمرض کے خدوخال ہوتے ہیں اورہر مرض کا روحانی وجود بھی ہوتاہے ۔ یہ
دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔ موجودہ دورمیں نفسیاتی اورطبعی امراض کا جو
کردارسامنے آیا ہے اس کی روشنی میں اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔ روحانی علم کا
نظریہ علاج یہ ہے کہ امراض کی جسمانی وجود کے ساتھ ساتھ روحانی یا ذہنی وجود پر
ضرب لگائی جائے اورذہنی طورپر اس کی نفی
کی جائے تو بہت جلد شفا حاصل ہوجاتی ہے ۔
نا صرف جلد شفا حاصل ہوجاتی ہے بلکہ پیچیدہ ولاعلاج امراض سے نجات بھی ممکن ہے ۔
اس کتاب میں شک اوربے یقینی کے طوفان سے پیداہونے والی تقریبا دوسو 200 بیماریوں
اورمسائل کو یکجا کرکے تعویذات اوروظائف کے ذریعہ ان کا حل پیش کیا گیا ہے ۔