Topics

پیغام ِ یوم وصال

 

ہر سال ۲۷ جنوری کو حضور قلندبابا اولیاء  کا یوم وصال ہوتا ہے۔ اس دن ایک اہم حصہ قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا پیغام بھی ہوتا ہے۔ جو دنیا بھر میں ان کے عقیدت مندوں کے لیے تحریری شکل میں روحانی ڈائجسٹ میں شایع ہوتا ہے۔ جنوری ۱۹۷۹ تا جنوری ۱۹۹۱ تک کے پیغام یک جا شکل میں روحانی ڈائجسٹ  کی زینت  بن چکے ہیں۔ محبت اور عقیدت کی سچی خوشبو  سے مہکتے  یہ لفظ اور دلوں کے تار  چھیڑ نے والی یہ سچی تحریریں پیش خدمت  ہیں۔

جنوری ۱۹۷۹

آہ قلندر بابا اولیاء:واحسرتا! کہ آج دنیا اس وجودِ سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں اُن کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعہ سنتے ہیں، میرے ذریعہ بولتے ہیں اور میرے ذریعہ چیزیں پکڑتے ہیں۔"

جگر خون ہوگیا، آنکھیں پانی بن گئیں اور دل پاش پاش ہوگیا، دماغ ماؤف ہوگئے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو، کوئی دل ایسا نہ تھا جو بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب نہ گیا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے جمِ غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا۔

ایسی برگزیدہ ہستی نے پردہ فرمالیا جس کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ فرشتے صف بستہ تھے، حضور سرور کائناتؐ، عاشق رسول حضرت اویس قرنیؓ، اولیاء اللہ کے سرتاج حضرت غوث الاعظمؒ کی ارواح طیبہ اپنے سعید فرزند کی نماز جنازہ میں پہلی صف میں تشریف فرما تھیں۔ حد نظر تک اولیا اللہ کی ارواح کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔

مشیت ایزدی ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں بجز صبر و شکر کے کوئی چارہ نہیں۔ "اللہ کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے" قرآن پاک میں ارشاد ہے۔۔۔ کل نفس ذائقۃ الموت۔پیش نظر شمارہ میں، عقیدتمند حضرات حضور قلندر بابا اولیاؒ کی یہ رباعی پڑھیں گے۔

اک جرعہ مئے ناب سے کیا پائے گا                                    اتنی سی کمی ہے فرق کیا آئے گا

ساقی مجھے اب مفت پلا کیا معلوم                                       یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا

 

جنوری ۱۹۸۰ء

 

 دنیا کی محبت انسان کو بزدل بنا دیتی ہے۔ وہ موت جیسی حقیقی زندگی سے خوف زدہ رہتا ہے۔ نفس پرستی پراگندگی، فتنہ انگیزی اور ظلم ستم عام ہو جاتا ہے۔ دوسری قومیں طرح طرح کی سازشوں کے جال بچھا کر اور مال و زر کی لالچ میں مبتلا ہو کر کم ہمت قوموں کو ختم کر دیتی ہیں۔ دنیا سے محبت اور موت سے خوف کرنا چھوڑ دیجئے۔ یہ عمل سکون راحت اور اطمینان قلب کا باعث بنے گا اور دوزخ آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گی۔

 

جنوری ۱۹۸۱

آؤ یارو!

دلدار کی باتیں کریں۔

فرمایا قلندر بابا اولیاءؒ نے کہ:

ہر فرد کو چاہئے کہ کاروبار حیات میں پوری پوری کوشش کرے اور نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے۔ اس لئے کہ آدمی حالات کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اس طرح زندگی گزارتا ہے۔ ہمیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلاتوقف معاف کر دو۔ اس لئے کہ انتقام اعصاب کو مضحمل کر دیتا ہے۔ تم اگر کسی کی دل آزاری کا سبب بن جاؤ تو اس سے معافی مانگ لو اس سے قطع نظر کہ وہ تم سے چھوٹا ہے یا بڑا۔ جھکنے میں عظمت پوشیدہ ہے۔

 

جنوری ۱۹۸۲

 

اک آن ہے میخانہ کی عمر اے ساقی                                               اک آن کے بعد کیا رہے گا ساقی

اک آن میں ہو کہکشاں خاکستر                                     اک آن کا فائدہ اٹھا لے ساقی

 

۲۷ جنوری ۱۹۸۳

 

قلندرعلم الٰہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ حق کی عکاسی کرتا ہے۔ انوار محمدی کے طفیل وہ خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ بن جاتا ہے توحیدی سکون اور حق آگہی کے کیف میں زندگی گزارتا ہے۔ قلندر کا یہ شیوہ ہے کہ وہ حسن حقیقت کو تحریر میں دیکھتا ہے مخلوق کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں قلندر     بہ حسن و خوبی نہ دیکھتا ہو۔ مستی و خود آگاہی قلندر کی ایک شان ہوتی ہے، وہ اپنے وجود سے گم ذات حق میں ضم ہوتا ہے۔قلندر شہید خفی ہو کر جیتے جی مر کر۔۔۔ اپنے اندر سبحانیت کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ دمادم دم مست قلندر کے دائمی کیف سے سرشار ہوتا ہے۔اس کی ذات کی انا پس  پردہ ہو جاتی ہےاور حق کو حقانیت میں دیکھتا ہے۔ قلندر چوں کہ زہد و تقوی کی جھول اتار کر آفتاتب رحمت کی شعاعوں کو جذب کر لیتا ہے۔ اس لیے ہوش اور بے ہوشی اس کے لیے بے معنی سی بات ہو جاتی ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاے رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کو ن سمجھے اور کیسے سمجھے۔۔وہ تکوین کے اس بلند مقا م پر فائز ہین۔جہاں عقل و شعور گنگ ہیں۔۔۔۔

 حضور کے رشتے میں منسلک من عرف نفسہٗ فقد عرفہ ربہٗ کے بھید کا رازدان ہوتا ہے۔ اس کے وجودی کثافتوں کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ حق کو حقانیت میں دیکھتا ہے۔

آدم کو بنایا ہے لکیروں میں بند                       آدم ہے اسی قید کے اندر خور سند

واضح رہے جس دم یہ لکیریں ٹوٹیں                 روکے گی نہ اک دم اسے مِٹّی کی کمند

 

٭٭٭٭٭٭٭

اس بات پر سب غور کریں گے شاید                 آہیں بھی وہ دوچار بھریں گے شاید

ہے ایک ہی بات اسمیں پانی ہوکہ مئے              ہم ٹوٹ کے ساغر ہی بنیں گے شاید

٭٭٭٭٭٭٭

ساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر                       پینے کے سوا کیا مجھے کرنی ہے عمر

پانی کی طرح آج پلادے بادہ                                        پانی کی طرح کل تو بکھرنی ہے عمر

 

۲۷ جنوری ۱۹۸۵

 سروقد، لالہ رخسار، غزال چشم، غنچہ دہن، کتابی چہرہ، صراحی گردن؛ بال چاندی کے تار؛حضرت مائی قلندرؒ تشریف لائیں۔ قدم اٹھا تو جھمکاکہ ہوا۔پلک جھپکی تو قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے،حضرت مائی قلندر نے روحوں  کی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔ بولیں۔۔۔مجھے دیکھنے کے بعد بھی تجھے کچھ دیکھنے کی تمنا تھی۔۔دیکھ تیری تمنا پوری ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔آپ کوں ہیں؟

                بولیں۔۔۔۔

میرے دو وجود ہیں ایک وجود پر ہر لمحہ موت وارد رہتی ہے جس لمحے موت وارد ہوتی ہے اس لمحہ ایک اور وجود تشکیل پاجاتا ہے۔ میرا یہ وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ بہ لمحہ حیات ہے، میرا دوسرا وجود وہ ہے جس پر لمحات، گھنٹے، دن اور ماہ و سال اثر انداز نہیں ہوتے، نہ تو وہ پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ مرتا ہے۔

حضرت مائی  قلندرصاحبہ کے نرم اور جھاگ جیسے ملائم خوب صورت ہاتھوں کو میں نے چوما، آنکھوں سے چھوا اور بے قرار دل کے ساتھ عرض کیا۔۔۔کوئی نصیحت کریں۔۔۔!حضرت مائی قلندر  نے آسمان کو دیکھا پلکوں کا ارتعاش رک گیا  تجلی سےمخمور چہرے کو میں تکتا رہا ایک آواز ۔۔گونجی۔

اے بیٹا۔۔۔!انگشت شہادت کھلی ۔ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوا اور زبان سے الفاظ نکلے

بیٹا۔۔۔۔!رب راضی سب راضی

۲۷ جنوری ۱۹۸۶

اللہ اکبر۔۔۔۔۔رحمتوں کی بھرن پڑ رہی ہے ہر طرف  نور ہی نور ہے ایک محفل سجی ہوئی ہے۔ اللہ کے مقبول بندے اور فرشتے جمع ہیں واقف اسرار نہاں دانائےرموز لا مکانی۔حامل علم لدنی۔ ابدال حق حضور قلندر باب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ زریں پوشاک پہنے ۔ دولہا بنے ہوئے بہ انداز دلیری مسند عروس پر جلوہ افروز ہیں۔

 

۲۷ جنوری ۱۹۸۷

مراقبہ ایک ایسا عمل کا نام نہیں ہے بل کہ مراقبہ مختلف علوم کے حصول کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ سالک اگر اسم رحیم کا مراقبہ کرے یعنی وہ ذہنی یک سوئی کے ساتھ اس بات کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جائے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی کا ایک جزو ہے تو اس کے اوپر تخلیقی علوم منکشف ہو جاتے ہیں۔

 

۲۷ جنوری ۱۹۸۸

حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ۱۹۸۱ کا پورا مضمون دوبارہ شایع کیا گیاہے۔

 

۲۷ جنوری ۱۹۸۹

حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیا االمعروف حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔اب کہ اس مفارقت کو دو سال گزر گئے ہیں۔ وصال کی تاریخ کی مناسبت سے نظریہ حیات و ممات کو سمجھنے کے لیے قلندر بابا اولیاء کی طرز فکر  اس طرح عیاں ہوتی ہے:

شب بیداری  کے دوران قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی باطنی نگاہ متحرک ہوئی تو انہوں نے سامنے پڑِ ہوئی مٹی کو دیکھا۔ مٹی کے ذرات سے گفت گو  کی۔۔۔مٹی نے انہیں بتایا۔ ماضی میں میرے ہر ذرے کی اپنی ایک ہستی تھی ، ان مٹی کے ذرات میں سے کوئی ذرہ برہمن تھا کوئی ذرہ واعظ تھا۔ کوئی ذرہ گداگر تھا۔ کوئی ذرہ بادشاہ تھا۔۔۔آج یہ حال ہے کہ بادشاہ گداگر ۔۔واعظ اور برہمن ۔مٹی کے ایسے ذرات ہیں جن کو خود ان کی اولادیں پیروں تلے روندتی پھر تی ہیں۔

 

۲۷ جنوری ۱۹۹۰:

ستائیس جنوری انیس سو اناسی عیسوی کو عظیم روحانی سائنس داں قلندر بابا اولیا ایک کائناتی حلقے سے رخت سفر(علم الاسماء) باندھ کر دوسرے حلقے عالم اعراف میں چلے گئے۔ دوسرے حلقے سے تیسرے حلقے۔ حشرو نشر کا انتظام وانصرام ابھی باقی ہے تیسرے حلقے سے چوتھے آدم و حوا کے وطن مالوف میں حوروغلمان ۔ قلندر بابا اولیاء کے لیے چشم براہ ہیں۔۔۔کون جانے یہ ازلی سعید صاحب اختیار ہستی اپنی آخری قیام گاہ جنت کو بناتی ہے یا اعلیٰ علییں میں استاد ازل کی قربت کے لیے مرتبہ حضوری میں فائز المرام ہوتی ہے۔

 

دوستوں !ہم مشب مے نوش، جلوہ یار کے پروانو ، صوت سرمدی کے مستانو۔آؤ تاکہ ہم تمنا کریں کہ

مرنے کے بعد اپنے مشفق و کرم فرما ؛ روحانی باپ کے ساتھ ہمارا قیام ہو خوش نصیب ہیں وہ روحیں جو اپنے جسمانی لباس کے ساتھ استاد اذل صاحب قدرت؛ اللہ رب العالمین کے بندے؛ احسن الخالقین کے دوست؛ ابدال حق قلندر بابا اولیارحمۃ اللہ علیہ  کے عرس مبارک میں شریک ہو رہے ہیں۔

 

۲۷ جنوری  ۱۹۹۱:

ایک بار مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا نے فرمایا:

زمانہ گزرا۔۔۔ کہ ایک آدم زاد اتنی کو پہنچ گئے ۔ان کا دنیا میں کوئی نہیں رہا۔گزر بسر کے لیے جنگل سےلکڑیاں توڑ کر فروخت کرتے تھے۔ایک روز زیادہ لکڑیاں باندھ کر گھٹر تو باندھ لیا لیکن اٹھاتے وقت ہاتھون میں لرزہ آگیا۔ خون پانی بن کرآنکھوں سے بہہ نکلا۔بڑی حسرت کے ساتھ آہ بھری اور بولے:

مجھ سے تو ملک الموت بھی روٹھ گیا ہے۔ اس کو بھی میرے حال پر رحم نہیں آتا۔۔۔میں اب کیوں زندہ ہوں ۔میرے سب مرکھپ گئے۔۔۔مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔

ابھی لمحہ بھی نہیں گزرا تھاایک خوب صورت نوجوان سیدھی طرف آکھڑا ہوا۔

سلام کیا اور پوچھا۔۔

بزرگو!میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔

بزرگ نے پوچھا ۔کون ہو تم؟

نوجوان بولا۔میں ملک الموت ہوں۔ ابھی آپ نے یاد کیا تھا سو حاضر ہو گیا ہوں،

بزرگ فوراً بولے۔۔۔لکڑی کا یہ گٹھا اٹھاکر میرے سر پر رکھ دے۔


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔