Topics

قلندربابااولیاءرحمۃ اللہ علیہ کی شعری تخلیقات


سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے رباعی کے علاوہ نظم منظوم خط غزل اور منقبت بھی لکھی ہے سید نثار علی بخاری کے مطابق آپ اردو اور فارسی میں اشعار کہے تھے اردو کلام پر فارسی اثرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو فارسی پر کامل مہارت تھی آپ کا رباعی  گو ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے لیکن آپ کا فارسی کلام دستیاب نہیں ماسوائے ان اشعار کے جو منظوم خط میں درج ہیں اور ایک فارسی رباعی کے اردو کلام کے حسب ذیل اصناف میں نمونہ ہائے کلام موجود ہیں۔

منقبت:

شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیا کے مشاہدے میں اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اورسوچ میں گم رہتا ہے ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔

شاعری کی بہت سی اقسام ہیں صنف منقبت قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے۔ اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن اصطلاحاً یہ لفظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔مرزا غالب اور علامہ اقبال سمیت بیشتر مشہور شعراء نے منقبت لکھی ہیں منقبت میں شاعر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اسے ایک تخلیق کی صورت میں اخذکرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچادے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح شاعر حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ کی شان اعلا بیان کرتا ہے۔

حضرت علی کی نسبت سے منقبت کا تعلق مذہبی جذبات و احساسات سے ہے جس  شاعر کے دل میں یہ جذبہ احساس جاگزیں ہوتا ہے وہی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ثنا کرتا ہے ان کے سامنے دست سوال دراز کر کے دعا مانگتا ہے اور اپنی پریشان حالی کا تذکرہ کر کے رحم وکرم کی درخواست کرتا ہے ۔

یہ  ایک روشن حقیقت ہے کہ ہمارے بیشتر شعرا کے دل اس جذبے سے لبریز رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہر دور کے شعرا نے دل کی گہرائیوں سے مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہی  ہیں۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مقام و مرتبے کو بڑی خوبی سے ظاہر کیا ہے اور ان کے حضور دونوں پحیلا کر اپنے دل کی بات عاجزی و انکساری سے کہی ہے۔

اسی صنف میں سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل ہیں سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی ایک منقبت بحر زمزمہ/متدارک مثمن مضاعف (فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ)میں موجود ہے۔

منقبت کی خوبی ہے کہ اس میں بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت کے اظہار میں روایت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ علیہ تعالیٰ عنہ کی مدحت  کو بھی شامل رکھا ہے۔

نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

یا بابا تاج الدین ولی ؒ ،  تُم زلفِ نبی  ، کیسوئے  علی ؑ

تم لاڈلے بی بی زہرا ؓ کے ، تم روئے حسینؑ ابروئے علیؑ

پروردۂ  نازِ خدا  تم  ہو  ،  سر کردہ  راز  ِ خد ا  تم  ہو

گُل زار نیازِ خدا تم ہو ، خوشبوئے حسینؑ خوشبوئے علیؑ

اس دور کے اندر جانا ہے، اس دور کے اندر سمجھا ہے

تم سے ہے جمالِ مصطفویؐ، تم سے ہے جلالِ خوئے علیؑ

تم ختم ِ رُسلؐ کا نقشِ قدم،  تم شمعِ عرب،  تم شمعِ عجم

تم سر خفی و جلی باہم  ،  مہکی ہے تم سے بوئے علی ؑ

یہ آپ ہی کا نواسہ ہے، دریا پی کر بھی جو پیاسا ہے

جَلوؤں کا سمندر دے دیجئے، اے بادۂ حق اے جوئے علیؑ


غزل:  اصطلاحی شاعری میں غزل سے مراد  وہ صنف نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق و عاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہو ں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا مجازی۔گویا ٖغزل واردات قلبی کو اشعار کی صورت بیان کرنے کا نام ہے۔ غزل کے ہر شعر کا موضوع الگ ہوتا ہے۔ اور ایک پوری غزل بھی ایک موضوع پر کہی جا سکتی ہے ۔غزل چوں کہ اظہار عشق کا نام ہے تو اسی مناسبت سے اس نرم و نازک الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز فارسی زبان سے ہوتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اس کے عربی زبان سے تعلق سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عربی صنف قصیدہ  میں موجود تشبیب سے ہی  غزل کی ابتدا ہوئی۔

غزل بہت آسان صنف سخن ہے ۔لیکن  اگرغزل ذمہ داری سے کہی جائے ،اسے ذاتی تجربے کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس سے زیادہ صبر آزما کوئی دوسری صنف سخن نہیں۔

غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے مصرع اولیٰ اور مصرعہ ثانی میں قافیہ اور ردیف ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں قافیہ اور ردیف ہوتے ہیں اس لیے اس کو مطلع کہا جاتا ہے مطلع کا مطلب کرنے والا کھولنے والا ہے۔ اسی طرح غزل کے آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں مقطع کا مطلب قطع کرنا یا پھر ختم کرنا بھی ہے۔ مقطع میں اکثرشاعر اپنا نام یا تخلص شامل کرتا ہے۔ غزل کے کم سے کم اشعار کی تعدادپانچ اور زیادہ سے زیادہ گیارہ یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

غزل کے اجزائے ترکیبی چار ہیں غزل ان ہی چار اجزاۓترکیبی سے ترتیب دی جاتی ہے اور یہی چار سے زائد ترکیب غزل کی پہچان ہیں:

1۔ ردیف                  2۔قافیہ                    3۔ مطلع                   4۔ مقطع

جس بھی شعری تخلیق میں انچارج حیدر کی بیوی کا اپنے پورے لوازمات کے ساتھ خیال رکھا گیا ہو۔ وہ غزل کی تعریف پر پوری اترتی ہے عام طور پر ان چاروں مذاہب ترکیبی کی پابندی کی جاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کسی غزل میں یہ چاروں بیک وقت موجود ہوں مطلع مقطع ردیف کے بغیر بھی غزل کہی جا سکتی ہے۔

ردیف:۔ ردیف دراصل وہ لفظ یا جملہ ہوتا ہے جو کسی بھی غزل یا نظم کے مطلع کہ دونوں مصروں میں باندھا جاتا ہے اور جس غزل میں ردیف کا اہتمام کیا جائے وہ مرد ف غزل  کہلاتی ہے اور جس میں ردیف کا  اہتمام نہ کیا جائے وہ غیر مردف کہلاتی ہے۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی غزل کی ردیف بہت خوبصورت اور سادہ ہے ہے۔ مطلع میں ردیف "ہے" کو تکمیل کی علامت کے طور  استعمال کیا ہے۔

عشق ہی میرا سفر ہے عشق ہی کاشانہ ہے

میں وہی کشتی ہوں جس کا ناخدا دیوانہ ہے

 قافیہ:۔ قافیہ دراصل وہ لفظ یا جملہ ہوتا ہے جو کسی بھی مطلع کے آخر میں ردیف سے بالکل پہلے استعمال کیا جاتا ہے اور غزل کے باقی اشعار کے دوسرے مصرعے میں بالکل اسی جگہ پر آنے والے لفظ صوتی ہم آہنگی  بھی رکھتا ہو۔ اکثر اساتذہ کرام کا کہنا ہے کہ ہر  شعری تخلیق میں قافیہ کے التزام کرتے وقت اس چیز کا خاص خیال رکھا جائے کہ ہر شروع کا قافیہ اپنے معنی میں دوسرے شعر کے قافیے سے مختلف ہوں البتہ قافیہ کے دو مختلف معنی ہوں اور ایک ہی شعر کے دونوں مصرعوں میں اسے مختلف معنی  میں  لینا مقصود لیا جا سکتا ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ آپ  کی غزل  کی ردیفیں بہت خوبصورت اور کلاسیکی ہیں جیسا کہ :

کاشانہ، دیوانہ، افسانہ، پروانا، بیگانہ، رندانہ

ابتدائی کلام میں غزل کا نمونہ موجود ہے جو 5 دسمبر 1942 کو بچپن کے دوست سید نثار علی بخاری کو ایک خط میں اپنے تخلص "زارونزار" سے لکھی ۔سید محمد عظیم  رحمۃ اللہ علیہ کی غزل کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

عشق ہی میرا سفر ہے عشق ہی کاشانہ ہے

میں وہی کشتی ہوں جس کا ناخدا دیوانہ ہے

یاد ہیں وہ دن کہ سر تھا اور لطف پائے دوست

اب وہی سر کوہ و صحرا کے لئے افسانہ ہے

شمع  اپنے  ساتھ  دور  زندگانی  لے  گئی

کچھ نہیں محفل میں  اک  خاکستر  پروانہ  ہے

دل رہا میرا وہ صورت جلوہ گر جب تک رہی

اب میں بیگانہ ہوں دل سے مجھ سے دل بیگانہ ہے

میں ہوں اور میخانہ خون محبت ہے عظیم

زندگی   میری   فقط   اک   جرأت  رندانہ  ہے

 

مطلع:۔ لغت میں مطلع کے معنی طلوع ہونے کی جگہ ہے یہی وجہ ہے کہ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے مگر مطلع کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیہ کی پابندی کی  جائے، اگر کسی غزل کے پہلے شعر میں اس بات کا التزام  نہ ہو تو مطلع نہیں بل کہ غزل کا پہلا شعر کہلائے گا، اور کسی غزل میں  ایک سے زیادہ  مطلعےہو سکتے ہیں، اسی صورت میں اضافی مطلع  کو مطلع ثانی، حسن مطلع کی زیب مطلع کہتے ہیں۔ سید محمد عظیم رحمتہ اللہ  علیہ کی غزل ہی عشق جیسے آفاقی پیغام سے شروع ہوتا ہے یہ مطلع  یہ بھی بتاتا ہے کہ  طبیعت میں صوفیانہ رنگ  اوائل سے ہی غالب تھا ۔لکھتے ہیں کہ

عشق ہی میرا سفر ہے عشق ہی کاشانہ ہے

میں وہی کشتی ہوں جس کا ناخدا دیوانہ ہے

 

مقطع:۔ لغت میں مقطع کے معنی میں قطع کرنا توڑ دینا کاٹ دینا یا ختم کردینا ہے مقطع شعری تخلیق (غزل) کا آخری  وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے،اگر کسی غزل کے آخری شعر میں اس بات کا التزام نہ کیا جائے تو وہ نہیں بل کہ غزل کا آخری شعر کہلائے گا۔

سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کے غزل کا مقطع کلاسیکی الفاظ کے استعمال سے نہ صرف غزل میں رنگ بھرتا ہے بل کہ انتہائی خوبصورتی پیدا کر دیتا ہے ملاحظہ کیجئے ۔

میں ہوں اور میخانہ خون محبت ہے عظیم

زندگی   میری   فقط   اک   جرأت  رندانہ  ہے

سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے جس عہد میں یہ غزل لکھی تھی وہ برصغیر ہی میں نہیں پورے عالمی منظر نامے پر امت مسلمہ کے ہمہ جہتی زوال و انحطاط کا تاریک  ترین دور تھا  نظریاتی  اور ثقافتی گھٹن  کے اس ماحول میں مذہبی ،صوفیانہ اور روحانی شاعری کا بیڑا اٹھانا فی الواقع اولوالعزم ہستیوں ہی کا کام  ہو سکتا تھا۔کیوں کہ یہ ایک طرف اپنی قدیم مٹتی ہوئی روایات کو تھام کر پورے  عصری ماحول کے خلاف مزاحمت اور مسلسل پیکار کا متقاضی تھا اور دوسری جانب یہ وہ واحد راستہ تھا جو انسان آشوب کا تدارک اور ملی آزار کا حقیقی مداوا کر سکتا تھا۔

 


Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔