Topics

تشبیہاتی و استعاراتی نظام ، علامتیں ، مرکبات و محاوارات ، علم بدیع


صوفیانہ شاعری کا درجہ کمال یہ ہے کہ اسلوب اور مواد دونوں ہی اپنے معیار کے نقطہ عروج پر ہوں۔  یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر شعر تصوف میں ڈھل جاتا ہے اور تصوف شعر میں اتر آتا ہے ۔سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ بیان فطری جاذبیت لیے ہوئے ہے۔ زبان صاف ،اسلوب دلکش اور انداز انتہائی سادہ ہے۔ عمیق صوفیانہ مضا مین میں بیان کرتے ہوئے بھی سریت، ایمائیت اور مشکل پسندی سے گریز کیا ہے۔

 سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی رباعیات وسیع تشبیہاتی  اور استعاراتی نظام سے مزین ہیں ان کی رباعیات میں موجود علامتیں، مرکبات و محاورات، علم بدیع کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس حوالے سے روایات کا فنی نظام یوں تشکیل پاتا ہے۔

فرشتے:

فرشتے وہ غیبی مخلوق ہیں۔ جو قدرت کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔اور ان کو خداءی ہدایات کے مطابق سر انجام دیتےہیں۔ وہ پاک روحیں اور مقدس وجود ہیں جو خدا کی اس کائنات اور زندگی کے نظام کے حصہ ہیں۔ جو بڑی ھد تک ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی ہیں۔

فرشتے انسانوں کا کام بھی کرتے ہیں اور حیوانوں کا بھی زمین اور آسمانوں کے بہت سے کام ہیں جو فرشتے کے متعلق ہیں۔ مثلا بادلوں کا آنا ہواؤں کا چلنا موسموں کی تبدیلی اور قدرت کے ان گنت کام جن کا آدمی احساس کرتا ہے۔ قرآن پاک ہو یا انجیل مقدس کے پاس نغمے ہوں یا تورات کے احکامات عشرا، غرض کے جو بھی مقدس کتابوں میں ہیں۔ وہ جبرائیل علیہ السلام  کی معرفت پیغمبروں کو  بھیجا گیا ہے۔

 وحی کے علاوہ فرشتے بہشت اور دوزخ کے انتظام میں بھی شریک رہتے ہیں شیطان کو انگارے مارنے کا جو تصور مذہبی عقیدے کے طور پر ہمارے یہاں موجود ہیں وہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فرشتہ غیب سے حضور کا پیغام لے کر آتا تھا۔

 قرآن پاک میں ایک موقع پر یہ کہا گیا ہے کہ

اےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور جو تم سے پہلے نبیوں پر نازل کیا گیا تھا اس نزول  میں فرشتہ غیب شریک رہا ہے۔

 اور وہ فرشتہ جبرائیل علیہ السلام اور اس طرح جہاں پیغمبروں کو خدا ئی احکامات  کاامین  بتایا گیا ہے کہ وہ اس امانت کو پیغمبر تک لانے میں اللہ عزوجل کا خاص فرشتہ جبرائیل علیہ السلام شریک  رہتا ہے۔

سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی رباعی میں فرشتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے ۔

 یہ جانتی ہے کیوں ہیں فرشتے روپوش               یہ جانتی ہے کیا ہے فرشتوں کا ہوش

یہ جانتی ہے ضرور قدرت کا راز                     سوسن ہے زباں دراز پھر ہے خاموش

ساقی:

ساقی شراب پلانے والے کو کہتے ہیں لیکن اس کا اپنا ایک الگ انداز ہوتا ہے ۔مےخانے کے ذکر میں ساقی کا تذکرہ اکثر و بیشتر آتا تھا۔: "مے" روحانی شراب کے طور پر بھی پر بھی ہمارے شعرا کے یہاں آیا ہے۔ اس لیے ترقی کا تصور اپنے معنی کے لحاظ سے ایک نئی معنویت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ساقی سے شراب  مانگنے اور شراب پر اپنا حق جتانے کے معاملے میں ساقی  نامے الگ سے لکھے جاتے ہیں۔ اقبال کا ساقی نامہ یا پھر جو ش  کاساقی نامہ اس ضمن میں خصوصی حوالے کا درجہ رکھتے ہیں ۔ساقی نامہ میں صرف شراب کی تعریف نہیں کی جاتی بلکہ شراب اور شراب پلانے والے کے عقلی شعور اور تہذیبی اوصاف کو پیش کیا جاتا ہے اور حکیمانہ نکتے  ساقی نامہ میں پیش کرنا اس کے شعر ی اور شعوری تقاضوں کو فکری جواب اور جواز  مہیا کرنا بھی ہوتا ہے۔ساقی کو خطاب کرتے ہوئے فارسی اور اردو شاعری میں بہت خوبصورت اور حکیمانہ اندازنظر کے ساتھ ہوئی ۔ شاعری کے مثالی نمونے مل جاتے ہیں اور اس طرح ہماری مشرقی شاعری کا فلسفیانہ اور حکیمانہ رخ  زیادہ تاب ناک اور دلآویز ہو جاتا ہے۔

 سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی روایات میں صادق کا تذکرہ اس طرح ملتا ہے

 

اک جرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا                    اتنی سی کمی سے کیا فرق آئے گا

ساقی مجھے اب مفت پلا کیا معلوم                       یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا

 

اک عمر گزر گئی فراق دل میں                          تنہائی کی دیوار تھی ہر منزل میں

ساقی نے کرم کیا جگہ دی مجھ کو                         جام و قدح و صراحی کی محفل میں

 

بے بادہ رہوں اور میں واللہ  غلط                        ساقی کے سوا اور کی ہو چاہ غلط

ہے میکدہ و محراب پرستش میری                     میں میکدہ چھوڑ دوں یہ افواہ غلط

 

جب تک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر       جب تک کہ لکیر میں ہے خم کی تصویر

جب تک کہ شبِ مہ کا ورق ہے روشن                 ساقی نے کیا ہے مجھے ساغر میں اسیر

 

ساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر              پینے کے سوا کیا مجھے کرنی ہے عمر

پانی کی طرح آج پلادے بادہ                            پانی کی طرح کل تو بکھرنی ہے عمر

 

ساقی تیرے کے کدے میں اتنی بیداد              روزوں میں ہوا سارا مہینہ برباد

اس باب میں ہے پیر مغاں کا ارشاد                  گر بادہ نہ ہاتھ آئے تو آتی ہے باد

 

ساقی تیرا مخمور پئے گا سو بار                              گردش میں ہے ساغر تو رہے گا سو بار

سو بار جو ٹوٹے تو مجھے کیا غم ہے                         ساغر میری مٹی سے بنے گا سو بار

 

ساقی کا کرم ہے میں کہاں کا مے نوش                مجھ ایسے ہزار ہا کھڑے ہیں خاموش

مے خوار عظیم برخیا حاضر ہے                          افلاک سے آرہی ہے آوازسروش

 

مٹی کی لکیروں میں ہزاروں در ہیں                    گر جھانکئے کتنے مے کدے اندر ہیں

مینا ہے، شراب ناب ہے، ساقی ہے                   ذروں پہ جو غور کیجیے ساغر ہیں

مٹی:

مٹی نے اپنی قوت زرخیزی سے روشنی حرارت پانی اور ہوا کے ساتھ مل کر عالمی نباتات اور جمادات کی بہت سی اشکال انواع اور صورتوں کو محفوظ رکھا اور اپنی جمادی  کیفیت کے سہارے اس زمانے کی ان گنت مورتیوں کو ہم تک پہنچایا۔مٹی کے تذکرے میں بہت سی باتیں شامل ہیں۔ ارضیت فلسسفہ حیات کو جنم دینے والا ایک تصور ہے۔ لاکھوں سالوں سے بہت سی باتیں رسمیں ہیں ایسی ہیں جن میں مٹی کا ذکر موجود ہے۔

 سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں مٹی کے کئی روپ ہیں ۔

سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی کچھ روایات اس حوالے سے پیش ہے۔

 

ساقی تیرا مخمور پئے گا سو بار                            گردش میں ہے ساغر تو رہے گا سو بار

سو بار جو ٹوٹے تو مجھے کیا غم ہے                       ساغر میری مٹی سے بنے گا سو بار

 

کہتی ہے یہ مٹی بھی بہت سی باتیں                   باتوں میں گزر گئی ہیں اکثر راتیں

مٹی کے یہ ذرات بھی انسان تھے                    تھیں  کبھی ان کی شیخ و برہمن کی ذاتیں

 

ماتھے پہ عیاں تھی روشنی کے محراب               رخسار و لب جن کے تھے گوہر نایاب

مٹی نے انہیں بدل دیا مٹی میں                        کتنے ہوئے دفن آفتاب و ماہتاب

 

مٹی سے نکلتے ہیں پرندے اُڑ کر                       دنیا کی فضا دیکھتے ہیں مڑ مڑ کر

مٹی کی کشش سے اب کہاں جائیں گے             مٹی نے انہیں دیکھ لیا ہے مڑ کر

 

مٹی سے گلاب و یاسمین بنتے ہیں                     انسان بھی اسی مٹی سے بالیقیں بنتے ہیں

مٹی تو ہے یہ مگر اسی مٹی سے                           کتنے رخ و زلف نازنین بنتے ہیں

 

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس                 جاگیر ہے پاس ان کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو ہیں قیاس کے، مفروضہ ہیں             ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

 

مٹی کی بناوٹ کا ہے ایک نام دماغ                   انسان کے بدن میں اس سے جلتا ہے چراغ

جلتا ہے چراغ زندگانی ہر دم                          حتی کوئی لمحہ نہیں رہتا بے داغ

 

مٹی کے سبو شراب کی محفل ہیں                    نظاروں سے دنیا کے مگر بیدل ہیں

یہ دیکھتے سنتے ہیں، سمجھتے ہیں                           ذرات میں ان کے چشم و گوش و دل ہیں

 

مٹی کا ہے سینہ ، مٹی کا شانہ ہے                        مٹی کی گرفت میں تجھے آنا ہے

کچھ دیر پہنچنے میں لگے گی شاید                        مٹی کی طرف چند قدم جانا ہے

 

مٹی میں ہے دفن آدمی مٹی کا                         پتلا ہے وہ اک پیالہ بھری مٹی کا

مے خوار پیئں گے جس پیالہ میں شراب         وہ پیالہ بنے گا کل اسی مٹی کا

 

محرم نہیں راز کا وگرنہ کہتا                              اچھا تھا کہ اک ذرہ ہی آدم رہتا

ذرہ سے چلا چل کر اجل تک پہنچا                     مٹی کی جفائیں یہ کہاں تک سہتا

 

معلوم ہے تجھ کو زندگانی کا راز؟                     مٹی سے یہاں بن کے اڑا ہےشہباز

اس کے پرو پرزے تو یہی ذرے ہیں               البتہ کہ صناع ہے اس کا دم ساز

 

ہر ذرہ ہے اک خاص نمو کا پابند                      سبزہ و صنوبر ہو کہ ہوسروبلند

انسان کی مٹی کے ہر اک ذرہ سے                    جب ملتا ہے موقع تو نکلتے ہیں پرند

 

یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر                         انسان کی مٹی سے بنا ہے ساغر

سو بار بنا ہے بن کے ٹوٹا ہے عظیم                    کتنی ہی شکستوں کی صدا ہے ساغر

 

اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا                  اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم            میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا

 

انسان کاغرور اقتدار و زر ہے                          گر یہ بھی نہیں تو مذہب و ممبر ہے

دیکھا جو اسے بعد فنا ہونے کے                       معلوم ہوا یہ خاک مٹھی بھر ہے

 

آدم  کا  کوئی نقش نہیں ہے بیکار                       اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار

دستہ جو ہے کوزہ کو اٹھانے کے لیے                 یہ ساعد سمیں سے بناتا ہے کمہار

 

ہر چیز خیالات کی ہے پیمائش                          ہیں نام کی دنیا میں غم و آسائش

 تبدیل ہوئی جو خاک گورستاں میں                سب کوچہ و بازار کی تھی زیبائش

 

پانی:

پانی جو تمام روئے زمینپر پھیلا ہوا ہے۔ بڑَ ے بڑے سمندروں ، دریاؤں، جھیلوں اور سر چشموں میں جس کی فراوانی کا کوئی اندازہ نہیں ۔ پانی بنائے حیات ہے پانی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔یہ قدرت کی عجیب و غریب نعمت ہے اس کا کوئی ذائقہ نہیں ، رنگ نہیں۔ بہاؤ اس کی فطرت میں داخل ہے۔ پانی سے متعلق روایتیں بھی ہیں جو مذہب اور تہذیب میں داخل ہیں جیسے آب زم زماور آب حیات کا قصہ دریائےنیل کی کہانیاں ۔ قرآن میں انسان کی پیدائش کو پانی سے بتایا گیا ہے۔

سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں پانی ایک علامت کی شکل میں نظر آیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 

ساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر                  پینے کے سوا کیا مجھے کرنی ہے عمر

پانی کی طرح آج پلادے بادہ                                پانی کی طرح کل تو بکھرنی ہے عمر

 

وہ خمیر کیا ہوا مشروب جس کے پینے سے انسان میں سرور اور نشہ پیدا ہوتا ہے، یہ مشروب عام طور پر انگو کے عرق سے تیار کیا جاتا ہے شعرا نے اس من کے کیف و مستی کو بیان کرنے کے لیے مختلف حالتوں میں بیان کیا ہے۔ پانی کا تعلق شراب اور پینےپلانے سے بھی ہے سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے پانی کو ان شکلوں میں یوں بتایا ہے۔

 

اک جرعہ مئے ناب ہے ہر دم میرا                          اک جرعہ مئے ناب ہے عالم میرا

مستی و قلندری و گمراہی کیا                                     اک جرعہ مئے ناب ہے محرم میرا

 

تو آج خدارا کل کے بارے میں نہ سوچ                    آئے گی اجل ، اجل کے بارے میں نہ سوچ

رشتہ تو ہمارا ہے ازل سے لیکن                               پی اور پلا ، ازل کے بارے میں نہ سوچ

 

دنیا/ کائنات اور اس کے عناصر:
کائنات بے شمار ستاروں کا سلسلہ کواکب و سیاروں کا مجموعہ ہے۔ یہ ان گنت گھومتے پھرتے ستارے بیشتر اپنی جگہ آگ کے گولے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ستاروں کی عمر کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو آگ بھی اپنے بنین عمر کے اعتبار سے ایک خاص معنی میں ازنلی اور ابدی عنصر قرار پائےگی۔

کائنات اور عناصر کائنات کے بارے میں سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی کئی ایک رباعیات ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔

 

اب ذکر زمیں و آسماں کیوں کر ہو                 یہ عمر ہے کیا اس کا بیاں کیوں کر ہو

جس لمحہ پر آسمان  زمین ٹکڑے ہوں             وہ لمحہ پیچیدہ عیاں کیوں کر ہو

 

اس کنج خراب میں ہوا پیدا میں                    اس کنج خراب میں ہوا شیدا میں

اس کنج خراب نے کیا مجھ کو خراب                اس کنج خراب میں ہوا رسوا میں

 

دنیا وہ نگر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں              انسان  وہ گھر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں

وہ وقت کہ سب جس کو اہم کہتے ہیں             وہ وقت صفر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں

 

جب تک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر   جب تک کہ لکیر میں ہے خم کی تصویر

جب تک کہ شب مہ کا ورق ہے روشن           ساقی نے کیا ہے مجھے ساغر میں اسیر

 

کل عمر گزرگئی زمیں پر ناشاد                         افلاک نے ہرشانس کیا ہے برباد

شاید کہ وہاں خوشی میسر ہو عظیم                   ہے زیر زمیں بھی اک دنیا آباد

 

نہروں کو مئے ناب کی ویراں چھوڑا                پھولوں میں پرندوں کو غزل خواں چھوڑا

افتاد طبیعت تھی عجب آدم کی                        کچھ بس نہ چلا تو باغ رضواں چھوڑا

 


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔